وزیراعظم عمران خان کا ایک بیان سوشل میڈیا پر بحث اور ٹرولنگ کا موضوع بنا ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستانی کسان گائے سے 6 لیٹر یومیہ دودھ لیتا ہے جبکہ ہالینڈ میں گائے 40 لیٹر یومیہ دودھ دیتی ہے۔
اگرچہ وزیراعظم کی اس بات پر ہونے والی بحث کا جھکائو معیشت کے بجائے سیاست کی طرف زیادہ ہے اور لوگ دودھ دینے والی گائے کا تعلق محاورتی ’مقدس گائے‘ سے جوڑ کر طرح طرح کے فقرے کس رہے ہیں لیکن یہ اہم سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ہالینڈ کی گائے پاکستانی گائے کے مقابلے میں کہیں زیادہ دودھ کیسے اور کیوں دیتی ہے اور اگر پاکستانی گائے اتنا دودھ نہیں دیتی تو کیا اس سے جان چھڑا کر ولایتی گائے رکھ لینی چاہئے؟ اور سب سے اہم یہ کہ کیا گائے سے کم دودھ لینے میں قصور وار کسان ہے؟ پھر یہ بھی کہ کیا پاکستانی گائے کا 6 لیٹر دودھ ولایتی گائے کے 40 لیٹر جتنا یا اس سے زیادہ قدروقیمت کا مالک ہوسکتا ہے؟
اتوار کو میاںوالی میں نمل یونیورسٹی کے کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے گائے سے متعلق بات ملکی معیشت کے تناظر میں کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ لائیو اسٹاک میں ہم ساتویں نمبر پر ہیں، لیکن خشک دودھ امپورٹ کرتے ہیں۔ ہمارے کسان گائے سے 6 لیٹر دودھ لیتے ہیں اور ہالینڈ میں 40 لیٹر لیتے ہیں۔
بظاہر وزیراعظم نے گائے سے کم دودھ لینے کی ذمہ داری کسان پر ڈالی۔ بالکل ویسے ہی جیسے محصولات کم جمع کرانے کی ذمہ داری ٹیکس نادہندگان کے بجائے فیڈرل بیورو آف ریونیو(ایف بی آر) پر عائد کی جاتی ہے۔
حقائق کو سامنے رکھا جائے تو ایک بات واضح ہے کہ ہالینڈ کا کسان اپنی گائے سے یومیہ 40 لیٹر یا اس سے زیادہ دودھ اس لیے حاصل کرتا ہے کہ ہالینڈ کی ہولسٹائن نسل کی گائے دنیا میں سب سے زیادہ دودھ دینے والا جانور ہے۔ سفید اور سیاہ دھبوں والی اس گائے کے مقابلے پر پچھلے سینکڑوں برس سے کوئی گائے نہیں آئی۔
پاکستان کے پاس البتہ ساہیوال نسل کی اپنی گائے موجود ہے جو ہالینڈ کی گائے جتنا دودھ تو نہیں دیتی لیکن اس کے اپنے فوائد ہیں۔
ہالینڈ کی گائے
ہالینڈ کی ہولسٹائن گائے کی نسل لگ بھگ دو ہزار برس پہلے شمالی ہالینڈ میں کراس بریڈنگ کے نتیجے میں شروع ہوئی۔ موجودہ جرمنی کے علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک قبیلہ اپنی سیاہ گایوں کے ساتھ نقل مکانی کرکے وہاں پہنچا جہاں مقامی فرسی قبائل کی گائے سفید رنگ کی تھی۔ کراس بریڈنگ سے سفید اور سیاہ دھبوں والی ہولسٹائن گائے کی نسل شروع ہوئی۔ اگلے دو ہزار برس کا بیشتر حصہ کسانوں نے اس نسل کو خالص رکھنے پر زور لگانے میں صرف کیا۔ بعد میں یہ نسل امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا میں بھی پھیلی۔
ہالینڈ کی گائے کیلئے یومیہ 40 لیٹر دودھ کی پیداوار عام بات ہے۔ متحدہ عرب امارات کی العین ڈیری میں موجود اسی نسل کی ایک گائے یومیہ 100 لیٹر دودھ دیتی ہے۔ اسے ’سپرکاؤ‘ کا نام دیا گیا ہے۔
یہ گائے بڑی مقدار میں دودھ دینے کے علاوہ اپنے عظیم الشان حجم کی بدولت گوشت کی پیداوار میں بھی ’حصہ بقدر جثہ‘ ڈالتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہالینڈ کو ڈیری مصنوعات کے میدان میں چوٹی کے قریب پر پہنچانے میں اسی گائے کا اہم کردار ہے۔ نیدرلینڈ(ہالینڈ) کی مجموعی برآمدات میں سے 12 فیصد ڈیری مصنوعات کی ہوتی ہیں۔
ہالینڈ کی گائے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ بہت کم چارہ کھا کر بہت زیادہ دودھ دیتی ہے۔
اگرچہ سیاہ اور سفید بڑے بڑے دھبے اور قوی جسامت اس گائے کی پہچان ہیں تاہم اس کی ایک نسل سفید اور لال دھبوں والی بھی ہے۔
پاکستان میں ہالینڈ کی گائے کی قیمت ڈھائی لاکھ سے چار لاکھ روپے تک ہے۔
ساہیوال کی گائے
جیسے ہولسٹائن گائے ہالینڈ کی پہچان بنی، اسی طرح ساہیوال کی بھوری/سرخ گائے پاکستان کی پہچان ہے۔ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بھارت سمیت پورے جنوبی ایشیا میں یہ سب سے زیادہ دودھ دینے والی گائے ہے۔
ساہیوال کی گائے بھی قدیم تاریخ رکھتی ہے۔ برصغیر میں آب پاشی کا نظام رائج ہونے سے پہلے ’جنگلی‘ کہلائے جانے والے چرواہے اس گائے کے ریوڑ بڑے بڑے باڑوں میں رکھتے تھے۔ بعد میں اسے گھروں میں بھی رکھا جانے لگا۔
ساہیوال کی گائے برصغیر کی زیبوگائے کی نسل سے تعلق رکھتی ہے۔ زیبو گائے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ 2 ہزار برس قبل مسیح اسے مصر سے یہاں لایا گیا تھا۔ قدیم تہذیبوں کے آثار میں بھی اس کے مجسمے ملتے ہیں۔
زیبو اور ساہیوال کی گائے کی خاص نشانی سرخ رنگت کے علاوہ ان کا کوہان ہے۔ جو نر جانور میں زیادہ بڑا ہوتا ہے تاہم مادہ میں بھی نمایاں ہوتا ہے۔
ساہیوال کی گائے کے علاوہ لال سندھی خطے کی ایک اور زیادہ دودھ دینے والی نسل ہے۔
ساہیوال کی گائے عام طور پر 6 لیٹر سے 10 لیٹر یومیہ دودھ دیتی ہے۔ چند ایک ساہیوال نسل کی گائیں 18 لیٹر تک دودھ دینے کا ریکارڈ بھی بنا چکی ہیں۔
اس گائے کی قیمت سوا سے پونے دو لاکھ روپے ہے۔
کم دودھ کے باوجود ساہیوال کی گائے بہتر
گائے کی دوسری نسلوں سے کہیں زیادہ دودھ دینے والی ہالینڈ کی گائے مالی لحاظ سے منافع بخش ثابت ہوچکی ہے۔ تاہم تبدیل ہوتی دنیا میں اب مقدار کے ساتھ معیار بھی اہمیت اختیار کر رہا ہے۔ کچھ عشرے قبل تک جہاں مصنوعی کھاد کے ذریعے زیادہ زرعی پیداوار حاصل کرنے پر زور تھا وہیں بیماریاں پھیلنے کے بعد اب لوگ دیسی یا organic طریقے سے اگائی گئی غذا پر زور دے رہے ہیں۔
ساہیوال کی گائے کا بھی کچھ یہی معاملہ ہے۔ انڈیا ویٹرنری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر رنویر سنگھ کا کہنا ہے کہ ولایتی گائیوں کے دودھ میں انسانی صحت کے لیے مفید فیٹ اور پروٹین کی مقدار صرف 3 فیصد ہوتی ہے جبکہ ساہیوال کی گائے دودھ میں یہ مقدار 5 سے 6 فیصد ہے۔ ڈاکٹر رنویر سنگھ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ولایتی گائیوں کا دودھ استعمال کرنے والے بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جبکہ انہوں نے ساہیوال کی گائے کا دودھ استعمال کرنے والوں کو بیمار ہوتے نہیں دیکھا۔
ڈاکٹر رنویر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ساہیوال کی گائے بچوں اور دودھ کی پیداوار ساری زندگی جاری رکھتی ہے جبکہ ولایتی گائے تین چار بار کے بعد ناکارہ ہوجاتی ہے۔
تاہم سب سے اہم بات یہ ہے کہ ساہیوال کی گائے کے دودھ میں پروٹین کا A2 جین پایا جاتا ہے۔ عام طور پر دودھ میں دو قسم کے جین ہوتے ہیں۔ اے ون اور اے ٹو۔ ان میں سے اے ٹو کو مضر اور اے ٹو کو انسانی صحت کے لیے مفید قرار دیا گیا ہے۔
اسی اے ٹو جین کو بنیاد بنا کر آسٹریلیا کی ایک کمپنی نے دودھ کا ایک نیا بین الاقوامی کاروبار کھڑا کردیا ہے۔ کمپنی کا نام بھی ’’اے ٹو ملک کمپنی لمیٹڈ‘‘ ہے جو آسٹریلیا کے علاوہ چین، ہانگ کانگ، ملائیشیا، نیوزی لینڈ، سنگاپور، امریکہ اور برطانیہ میں کاروبار کر رہی ہے۔ نیوزی لینڈ میں جہاں عام دورھ کی قیمت 2.80 ڈالر ہے وہاں اے ٹو دودھ کی شروعاتی قیمت ہی 4 ڈالر فی لیٹر رکھی گئی۔
اے ٹو دودھ اب بھارت میں بھی فروخت ہو رہا ہے۔
ساہیوال کی گائے کا دودھ ولایتی گائے سے زیادہ مفید ہونے کی بدولت مارکیٹ میں اپنا ایک الگ مقام بنا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ باسپتی چاول کی طرح بھارت ساہیوال کی گائے پر بھی اپنا لیبل لگانے کی کوشش میں سرگرم ہے اور ہوسکتا ہے کہ کچھ ہی عرصے میں پاکستانی ساہیوال نسل کی گائے کا دورہ ’صحت بخش بھارتی دودھ‘ کے طور پر فروخت ہو رہا ہے۔
شاید بہتر یہ ہے کہ ہم دوسروں کے 40 لیٹر سے زیادہ اپنے 6 لیٹر کو عزت دینا شروع کردیں۔