ساہیوال مقتولین کے اہل خانہ نے پارلیمنٹ ہاوٴس میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی اور انصاف کا مطالبہ کیا۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک کی زیرصدارت قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس شروع ہوا تو سانحہ ساہیوال کے مقتول خلیل کے بھائی جلیل اور مقتول ذیشان کی والدہ زبیدہ بی بی پیش ہوئیں۔
اس موقع پر سانحہ ساہیوال میں جاں بحق افراد کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی جب کہ سیکرٹری کمیٹی نے سینیٹ میں پاس کی گئی رولنگ پڑھ کر سنائی اور رحمان ملک نے پنجابی زبان میں رولنگ کا ترجمہ کر کے لواحقین کو سنایا۔
چیئرمین کمیٹی رحمان ملک نے کہا کہ واقعے کے 6 گھنٹے بعد ہی کمیٹی نے اس معاملے کا نوٹس لیا جب کہ سینیٹر جاوید عباسی نے سینیٹ کے ایوان میں ایک قرارداد بھی پیش کی تھی، ہم یہاں پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر بیٹھے ہیں۔
سینیٹر رحمان ملک کا کہنا تھا کہ ہم یہ تحقیقات آپ کے خاندان کے رکن کے طور پر کررہے ہیں، انصاف ایسے ہی ملتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ اس سارے کیس میں پولیس ملوث ہے، انہیں کسی دہشت گرد نے نہیں مارا، ہم پولیس کی کسی تحقیقات کو نہیں مانتے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کو مارنے والے ہی ان کی تحقیقات کریں۔
سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ پولیس سے سانحہ ساہیوال کی تحقیقات واپس لی جائیں، آج بھی جے آئی ٹی کام کررہی ہے وہ کس قانون کے تحت کام کررہی ہے، جب کمیٹی اور سینیٹ نےپولیس تحقیقات مسترد کردیں تو یہ کیسے کام کررہے ہیں۔
سینیٹر جاوید عباسی نے مطالبہ کیا کہ فوری طور ہر اس معاملے پر عدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔
اجلاس کے دوران سینیٹر جاوید عباسی اور سینیٹر اعظم سواتی کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی، سینیٹر جاوید عباسی نے کہا ساہیوال واقعے پر حکومت نے پانچ مرتبہ موقف بدلا، ان کے اس بیان پر سینیٹر اعظم سواتی ناراض ہوگئے اور کہا کہ اس معاملے میں حکومت کا نام کیوں لیا گیا۔
جس پر سینیٹر جاوید عباسی نے کہا سانحہ ساہیوال میں حکومت ملوث ہے۔
اس سے قبل اسلام آباد روانگی کے موقع پر سی ٹی ڈی کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے گئے ذیشان کی والدہ زبیدہ بی بی کا کہنا تھا کہ انصاف کی امید لے کراسلام آباد جارہے ہیں، پچھلی دفعہ ہماری کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
مقتول خلیل کے بھائی جلیل نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ مسترد کرتے ہیں، دھمکیوں سے متعلق ہمارے وکیل کا دعویٰ خود ساختہ تھا اور اس وجہ سے وکیل تبدیل کر دیا ہے۔