آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کرنے والے قاری سالم کے وکیل غلام مصطفیٰ نے سپریم کورٹ میڈیا ڈائس پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمٰی نے شک کا فائدہ ملزمہ کو دیا ہے،ہمارے گواہان جھوٹے ثابت نہیں ہوئے۔
وکیل نے کہا کہ مدعی کے موقف کو گواہان نے درست ثابت کیا،گواہان اور مجمع کے اندر آسیہ نے اپنا جرم تسلیم کیا،اس کیس کے تمام قانونی اور شرعی نقاط عدالت کے سامنے پیش کیے،فوجداری مقدمات میں محرک کافی اہمیت رکھتا ہے،آسیہ نے گستاخی کی اسے پر امن طریقے سے صفائی پیش کرنے کا مکمل موقع دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ معاملہ کا قانونی حل نکالنے کو ترجیح دی گئی،مسلمانوں کو متشدد کہنا غلط ہے۔
آسیہ کی بریت کے خلاف درخواست کے مدعی قاری عبدالسلام نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے انہیں مایوسی ہوئی ہے، آسیہ کے خلاف کیس سچا تھا۔
سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل مسترد ہونے کے بعد امت سے گفتگو کرتے ہوئے قاری عبدالسلام نے کہا کہ اگر ہم غلط تھے تو لاہور ہائیکورٹ نے ہمارے حق میں فیصلہ کیوں دیا تھا۔
مدعی کا کہنا تھاکہ گواہوں کی گواہی کو قانون شہادت کے مطابق صحیح طور پرپرکھا نہیں گیا، بار بار ایک ہی بات کی گئی کہ کیس جھوٹا ہے، اتنے لوگ ایک ساتھ کیسے جھوٹ بول سکتے ہیں۔
قاری عبدالسلام ہی آسیہ کے خلاف مقدمے کے مدعی تھے۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے، عدالت تک آئے، اعلیٰ عدلیہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا۔ ایف آئی آر وقت پر درج کرائی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ وکلا نے کیس ٹھیک لڑا، ہم غلط تھے تو ہائیکورٹ نے کیوں ہمارے حق میں فیصلہ دیا تھا۔
یاد رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے آسیہ مسیح کو توہین رسالت کا مجرم قرار دیتے ہوئے اس کی سزائے موت برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا تھا۔