سانحہ ساہیوال پر جے آئی ٹی کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے گرفتار سی ٹی ڈی اہلکاروں نے دعویٰ کریا ہے کہ کار پر فائرنگ انہوں نے نہیں کی تھی۔
قانون دانوں کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کے اس دعوے سے تحقیقات طول پکڑنے کا امکان ہے۔
ادھر تحقیقات کے دوران پولیس نے 8 گواہ شامل تفتیش کر لیے ہیں جبکہ گواہوں کو ان کے بیانات کی نقول نہیں دی گئیں۔
مقتول خلیل کے اہلخانہ نے مسلسل جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کر رہے ہیں اور جمعرات کو بھی انہوں نے جے آئی تی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا۔
ذرائع کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے سی ٹی ڈی کے گرفتار اہلکاروں صفدر، رمضان، سیف اللہ اور حسنین سے تفتیش کی۔
جے آئی ٹی نے گرفتار اہلکاروں سے سوال کیا کہ گاڑی پر فائرنگ کس نے کی تھی؟ جس پر سی ٹی ڈی اہلکاروں نے فائرنگ سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کار پر فائرنگ نہیں کی تھی۔
سی ٹی ڈی اہلکاروں کے فائرنگ سے انکار پر جے آئی ٹی نے ملزمان سے پوچھا کہ پھر کار میں سوار افراد کیسے ہلاک ہوئے؟ جس پر ملزمان نے بتایا کہ موٹرسائیکل سوار ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔
ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی نے ملزمان سے سوال کیا کہ گولی چلانے کا حکم کس نے دیا تھا؟ اس پر ملزمان نے کہا کہ ہمیں فائرنگ کا کسی نے حکم نہیں دیا تھا، صرف جوابی فائرنگ کی تھی۔
یاد رہے کہ 19 جنوری کی سہہ پہر سی ٹی ڈی نے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر کار پر اندھا دھند فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں اس میں سوار 4 افراد جاں بحق اور تین بچے زخمی ہوگئےتھے۔ جس کے بعد سے گرفتارسی ٹی ڈی اہلکاروں کی جانب متضاد بیانات دیے جا رہے ہیں۔
سی ٹی ڈی نے اپنے پہلے مؤقف میں مرنے والوں کو اغوا کار قرار دیا تھا۔ پھر پولیس کے بیان اور سی ٹی ڈی تھانے میں درج مقدمے میں کہا گیا کہ کار سوار ’’دہشت گرد‘‘ اپنے موٹرسائیکل سوار ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے۔ لیکن کچھ دن بعد صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکریٹری داخلہ پنجاب نے بتایاتھا کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات میں موٹرسائیکل سواروں کی موجودگی کا ثبوت نہیں ملا۔
تاہم گرفتار سی ٹی ڈی اہلکاروں نے ایک بار پھر پچھلا مؤقف اپنا لیا ہے۔
سینئر قانون دان بیرسٹرکمال احمدنے ’’امت‘‘ سے گفتگومیں کہاہے کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کی جانب سے فائرنگ کے واقعے سے مکرجانے سے معاملات میں کافی جھول پیداہوگیاہے اب جے آئی ٹی کوکار سوارو ں پر فائرنگ کرنے والوں کے بارے میں بھی تحقیقات کرناہوں گی اور انھیں تلاش کرناہوگاآخرکوان موٹرسائیکل سواروں نے کار سواروں پر کیوں فائرنگ کی ہے اور فائرنگ کے بعدوہ کہاں فرار ہوگئے، ان کی گرفتاری اب تک کیوں نہیں ہوسکی ہے۔
بیرسٹر کمال احمد نے کہاکہاس واقعے سے اب کئی سوالات نے جنم لیاہے جن کے جوابات جب تک نہیں ملیں گے تحقیقات میں پیش رفت نہیں ہو پائے گی۔ انوہں نے کہا یہ سوالات بھی اہم ہیں کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں نے ان موٹر سائیکل سواروں کو قابو کیوں نہیں کیا ان کا پیچھا کیوں نہیں کیا گیا اور وہ اب تک کیوں گرفتار نہیں کیے گئے ہیں۔
ایس ایچ اوتھانہ یوسف والا ساہیوال نے امت کوبتایاکہ مقدمے کا چالان مرتب کرنے میں دو سے تین ہفتے لگ سکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی نے 8 عینی شاہدین کو شامل تفتیش جبکہ سابق ایس ایس پی سی ٹی ڈی جواد قمر کا بیان ریکارڈ کر لیا ہے۔
ذرائع کاکہناہے کہ عینی شاہدین نے اپنے بیانات میں واقعے کاذمہ دار سی ٹی ڈی اہلکاروں کوقرار دیاہے۔ تاہم گواہوں کو ان کے بیانات کی نقول فراہم نہیں کی گئیں۔
ذرائع نے بتایا کہ 3 گواہوں نے توواقعے کے حوالے سے ایک فوٹیج بھی پیش کی تھی جس کافرانزک جائزہ لیاجاچکاہے تاہم ابھی تک اس کی حتمی رپورٹ جے آئی ٹی کوموصول نہیں ہوسکی ہے امکان ہے کہ آئندہ 48گھنٹوں میں فرانزک رپورٹ جے آئی ٹی کوموصول ہو جائے گی۔