حج اخراجات میں اضافہ کیوں ہوا؟ اور یہ کتنا جائز یا جائز ہے؟ اس پر سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل اور وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری میں مکالمہ ہوا ہے۔ مفتاح اسماعیل نے کہاہے کہ روپے کی قدر گرنے اور سبسڈی کو شمار بھی کرلیا جائے تو بھی حکومت حاجیوں سے 9 ارب روپے اضافی بٹور رہی ہے۔ انہوں نے حاجیوں کی رہائشگاہوں کے لیے مہنگے ٹھیکوں کا سنگین الزام بھی عائد کیا۔ فواد چوہدری نے اضافے کے لیے سعودی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
حج اخراجات پر ’’امت‘‘ کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب میں ایک حاجی کا کل خرچ کتنا ہوگا، نیز یہ کہ مختلف ممالک کے یا ایک ہی ملک کے حاجیون کے اخراجات میں فرق کیوں ہوتا ہے۔
حج کے اخراجات پر بحث دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ خدشہ ہے کہ گذشتہ برس کی نسبت رواں سال نمایاں اضافہ ہونے کے سبب کئی لوگ حج سے محروم رہ جائیں گے۔
اتوار کو ٹوئٹر پر سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ گذشتہ برس حج اخراجات 283050 روپے تھے۔ اس برس 436975 ہیں۔ اگر حکومت کی جانب سے 40 ہزار روپے سبسڈی اور روپے کی قدر میں 20 فیصد کمی کو بھی شمار کرلیا جائے تو رواں برس حج اخراجات 387660 روپے ہونے چاہیئں۔ لیکن حکومت حاجیوں سے 9 ارب روپے اضافی وصول کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ’’کرپشن ہے، نااہلی یا صرف تبدیلی؟‘‘
اس پر فواد چوہدری نے کہاکہ ’’بہت خوشی ہوئی حج کیلئے آپ کا جذبہ دیکھ کر۔ ویسے آج کل وہ لوگ بھی حج سبسڈی پر دکھی ہیں جن کو محلے کی مسجد کا محل وقوع نہیں پتا، بہرحال آپ چونکہ ایک جینیس ہیں آپ کی اطلاع کیلئے سعودی حکومت نے حج ٹیکسز اور اخراجات میں اضافہ کیا ہے جس کی وجہ سے حج اخراجات میں ناگزیر اضافہ ہوا۔‘‘
جواب میں مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا، ’’فرائض حج کی ادائیگی کو آسان بنانے کا جتنا جذبہ آپ میں ہے شاید مجھ میں نہیں، مگر اگر حکومت سبسڈی اور روپے کی قدر میں کمی کے اثر کو نکال کر بھی حاجیوں سے نو ارب روپے زیادہ لے رہی ہے، توآخر وہ پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ کیا حکومت ہوٹلوں اور کھانے کے مہنگے ٹھیکے دئیے جانے کی ذمہ دار نہیں؟‘‘
اس پر فواد چوہدری نے کہا، ’’آپ کو معلوم ہے کہ 35% پچھلے سال سے ڈالر مہنگا ہوا ہے اور باقی سعودی حکومت کے ٹیکسز اور اخراجات میں اضافہ ہے، آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ بھی جاہلوں کی طرح مذہب پر سیاست کریں تو سیاست تنزل کا شکار ہو گی۔‘‘
یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں حاجیوں کے لیے رہائش گاہیں معمول سے زائد کرایے پر حاصل کرنے کا اسکینڈل سامنے آیا تھا جو بعد ازاں حج کرپشن کیس میں تبدیل ہوا اور پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی بھی اس کی لپیٹ میں آئے۔
تاہم کیا واقعی سعودی حکومت نے حج اخراجات بڑھا دیئے ہیں؟
گذشتہ حج سے پہلے سعودی عرب نے یکم جنوری 2018 کو پانچ فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس نافذ کیا تھا جس کے نتیجے میں ہوٹلوں کے قیام سمیت تمام اشیا مہنگی ہوگئی تھیں اور اسی وجہ سے گذشتہ حکومت نے حاجیوں کو سبسڈی دی تھی۔
حج ویزے کے لیے سعودی عرب رقم نہیں لیتا۔ البتہ حاجیوں کو گائیڈز، زم زم لانے والے ایجنٹوں ، منیٰ و عرفات کے قیام اور ٹرانسپورٹ کی مد میں رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ اسے عام زبان میں حج فیس کہتے ہیں۔ پاکستان سمیت بیشتر ممالک کے سرکاری اسکیم کے تحت حج کرنے والے عازمین یہ رقم اپنے تمام تر حج اخراجات کے ساتھ حکومتوں کے پاس جمع کراتے ہیں جو متعلقہ اخراجات کی مد میں درکار رقم سعودی حکومت کے سپرد کرتی ہیں۔ یہ فیس کم زیادہ ہوتی رہتی ہے۔
تمام ممالک کے حاجیوں کو ایک جتنی رقم ادا نہیں کرنا پڑتی۔ سعودی حکومت نے اس سلسلے میں معیار کے اعتبار سے 6 کیٹگریز بنا رکھی ہیں۔ 2016 میں سعودی وزارت حج و عمرہ نے جو اعلان کیا تھا اس کے مطابق 2016 میں اے ون کیٹگری کی حج فیس 4,132 سعودی ریال تھی جبکہ آخری کیٹگری کی فیس 3,532 سعودی ریال تھی۔ پاکستانی حاجی عام طور پر سب سے سستی کیٹگری میں آتے ہیں۔
حج 2017 کے اخراجات پر عرب ٹی وی الجریزہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستانی عازمین حج نے سب سے کم رقم ادا کی جو تین ہزار ڈالر سے کم تھی۔ بھارتی حاجیوں نے چار ہزار ڈالر تک اور بنگلہ دیش کے حاجیوں نے پانچ ہزار ڈالر تک ادا کیے تھے۔ انڈونیشیا کے حاجیوں نے بھی پاکستانی حاجیوں جتنی رقم دی یعنی تین ہزار ڈالر کے قریب لیکن انڈونیشیا کے پڑوسی ملک ملائیشیا کے عازمین نے اسی برس پانچ ہزار ڈالر کے لگ بھگ اخراجات سے حج کیا۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا کے اخراجات میں یہ نمایاں فرق قیام و طعام کے معیار کے سبب تھا۔
رواں برس سعودی عرب کی ’حج فیس‘ کا عام اعلان نہیں کیا گیا تاہم دیگر ممالک کے حج اخراجات سے پاکستان کے حج اخراجات کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ یمن کی وزارت اوقاف نے گذشتہ ماہ حاجیوں کی رہنمائی کے لیے ایک اعلان کیا جس میں کہا گیاکہ حاجی غیرمستند ایجنسیوں کے پاس رجسٹریشن نہ کرائیں اور اخراجات 8100 سعودی ریال( 299016 پاکستانی روپے) سے زیادہ نہ دیں۔ اس میں سفری اخراجات شامل نہیں۔ لیکن دیگر تمام اخراجات بشمول قیام و طعام اور ٹرانسپورٹ شامل ہیں۔
مختلف ممالک کے حاجیوں کے لیے اخراجات میں فرق کے دو ہی بنیادی اسباب ہوتے ہیں۔ سفر کے اخراجات جو فاصلے کے لحاظ سے کم یا زیادہ ہوسکتے ہیں اور قیام و طعام کا معیار جو سعودی حکومت کی کیٹگریز سے بھی ظاہر ہے۔
قیام کے اخراجات میں ایک ہی ملک کے حاجیوں میں بھی فرق ہوسکتا ہے۔ حرم کے قریب رہائش اختیار کرنے والوں کو زیادہ رقم دینا پڑتی ہے۔
یمنی حکومت کے اعلان سے یہی دکھائی دیتا ہےکہ سعودی عرب میں ہونے والے فی حاجی اخراجات 3 لاکھ پاکستانی روپے کے لگ بھگ بنتے ہیں۔ اس کے بعد سوال ریٹرن فضائی ٹکٹ کا رہ جاتا ہے۔
سعودی ایئرلائن، فلائی دبئی اور دیگر ایئرلائنز کے حالیہ کرایوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اگلے چند دن میں اگر کراچی سے جدہ کا سفر کیا جائے تو ٹکٹ کی قیمت 400 ڈالر یعنی 55 ہزار روپے کے لگ بھگ دینا ہوگی۔ شمالی ریجن پشاور، اسلام آباد وغیرہ کیلئے اس میں دس ہزار بڑھا لیں۔
حج کے دنوں میں فضائی ٹکٹ کی قیمت میں عام طور پر اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فضائی کمپنیوں کو ایک طرف سے طیارے خالی لے کر جانا پڑتے ہیں۔ طیاروں کی ان خالی پروازوں کو فیری فلائٹس کہا جاتا ہے۔ یعنی حج شروع ہونے سے پہلے پاکستان سے سعودی عرب پہنچنے والے طیاروں کو واپس پاکستان کے لیے فیری فلائٹ کرنا پڑتی ہے۔ حج کے بعد اس کا الٹ ہوتا ہے۔
عام دنوں میں دستیاب 55 ہزار کا ٹکٹ حج سیزن میں کتنا اوپر جاتا ہے اس کا انحصار ایئرلائنز پر ہے۔ سرکاری ایئرلائنز کے معاملے میں حکومتی پالیسی کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔
حج اخراجات کا حکومتی تخمینہ درست ہے یا غلط اس کا حتمی اندازہ حج کے بعد ہی ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں سامنے آنے والے حج اسکینڈل میں بنیادی الزام یہ تھا کہ حج کے دوران 35000 پاکستانی حاجیوں کے لیے حرم سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر جو رہائش گاہیں 3350 سعودی ریال میں مل رہی تھیں پاکستانی وزارت کے اعلیٰ حکام نے حرم سے ساڑھے تین کلومیٹر دور وہی رہائش گاہیں عازمین حج کے لیے 3600 ریال پر حاصل کی تھیں۔
یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ بڑھے ہوئے اخراجات کے ساتھ حاجیوں کو کیا سہولتیں ملتی ہیں۔
فی الوقت حج اخراجات بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ روپے کی قدر میں گراوٹ معلوم ہوتی ہے۔ 7 ماہ پہلے سعودی ریال کی قیمت 31 روپے تھی۔ اگر یہ قیمت برقرار رہتی تو 8100 ریال یعنی سعودی عرب میں ہونے والے اخراجات تین کے بجائے ڈھائی لاکھ روپے بنتے۔