افغان صدر سنجیدگی سے مستعفی ہونے کا سوچ رہے ہیں۔فائل فوٹو
افغان صدر سنجیدگی سے مستعفی ہونے کا سوچ رہے ہیں۔فائل فوٹو

افغان صدر اشرف غنی کی کھلی مداخلت پر پاکستان میں اشتعال

افغانستان کے صدر اشرف غنی کی جانب سے پاکستان میں کھلی مداخلت پر سخت اشتعال پایا جاتا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس پر ردعمل دیا ہے۔

اشرف غنی نے پشتون تحفظ موومنٹ(پی ٹی ایم) کا نام لیے بغیر جمعرات کی صبح دو ٹوئیٹس میں کہا کہ حکومت افغان کو خیبرپختون خواہ میں پرامن مظاہرین اور سماجی کارکنوں کے خلاف  ہونے والے تشدد پر سخت تشویش ہے۔ ہر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمارے خطے اور مجموعی سلامتی کیلئے خطرے بنی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف اٹھنے والی سول سرگرمیوں کی حمایت کرے۔ بصورت دیگر اس کے دور رس منفی نتائج ہوں گے۔

یہ بیان داغنے والے اشرف غنی ان دنوں سخت سیاسی دبائو کا شکار ہیں کیونکہ امریکہ طالبان مذاکرات میں انہیں جگہ نہیں ملی اور پھر بدھ کو ختم ہونے والی ماسکو کانفرنس میں انہیں نہیں بلایا گیا۔ ماسکو کانفرنس میں افغانستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے اور طالبان کے درمیان افغان امن عمل پر بات چیت ہوئی ہے۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے لیے سابق افغان سفیر عمر ذخیوال بھی شریک تھے اور مشترکہ اعلامیہ بھی انہوں نے ہی تیار کیا جس میں غیرملکی انخلا اور طالبان رہنمائوں پر پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔

تاہم اشرف غنی کی حکومت تمام تر کوششوں کے باوجود نہ تو یہ کانفرنس رکوا سکی اور نہ ہی اس میں شرکت کر پائی۔

افغان صدر کے بیان کو وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ’’کھلی مداخلت‘‘ قرار دیا۔ ٹوئٹر پر انہوں نے کہاکہ ہم صدر اشرف غنی کی ٹوئیٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ ایسے غیرذمہ دارانہ بیانات محض کھلی مداخلت ہیں۔ افگان قیادت کو افغان عوام کی دیرینہ اور سنجیدہ شکایات پر توجہ دینی چاہیے۔

وزیرخارجہ کے علاوہ عوام نے بھی سوشل میڈیا پر اشرف غنی کے بیان کی سخت مذمت کی ہے اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ ان پشتونوں کی فکر کریں جنہیں امریکی فوج افغانستان میں روز قتل کررہی ہے۔

ادھر پی ٹی ایم نے  کرم تنگی ڈیم کی تعمیر کے خلاف جمعرات کو ایک احتجاجی جرگہ منعقد کیا جس میں ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کا اعلان کیا گیا۔