سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورے سے پہلے پاکستان میں مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی (جنہیں خشوگی بھی لکھا جاتا ہے) کی تصویر فیس بک یا ٹوئٹر پروفائل پر بطور ڈی پی لگانے والے کئی افراد مبینہ طور پر اسے کچھ ہی گھنٹے میں اتارنے پر مجبور کردیئے گئے ہیں۔
ان افراد میں خاصی تعداد صحافیوں کی ہے۔ ان لوگوں نے جمعہ اور ہفتہ کو سعودی صحافی کی تصویر اپنے پروفائل پر لگائی تھی اور اتوار تک بیشتر نے تصویر اتار دی۔
تصویر لگانے والے افراد بشمول صحافیوں کو سوشل میڈیا پر سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں مغلظات سے نوازا کیا۔
خاشقجی کی ڈی پی لگانے والے صحافیوں میں عمر چیمہ، عمار مسعود، مطیع اللہ جان اور دیگر شامل تھے۔ جہاں زیادہ تر لوگوں نے خاشقجی کی تصویر اپنے پروفائل سے اتار دی وہیں مطیع اللہ جان نے یہ تصویر برقرار رکھی۔ مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ ایک ایسے فیلو صحافی کو یاد کرنے میں کیا برائی ہے جس کے بارے میں سعودی حکومت نے خود اعتراف کیا ہے کہ اسے اس کے سفارتی عملے نے قتل کیا۔
یاد رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو استنبول کے سعودی سفارتخانے میں اس وقت قتل کردیا گیا تھا جب وہ اپنے کاغذات کے سلسلے میں وہاں گئے تھے۔ سعودی عرب نے بعد میں اعتراف کیا تھا کہ خاشقجی کو قونصل خانے میں قتل کیا گیا۔ تاہم سعودی حکام اس بات سے انکاری ہیں کہ اس قتل میں ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے۔
دوسری جانب خاشقجی کی ڈی پیز پر اعتراض کرنے والوں نے کہا کہ سعودی صحافی کو مرے پانچ ماہ ہوگئے اب ایسے وقت یہ معاملہ اٹھانے کا کیا مقصد ہے جب کہ سعودی ولی عہد پاکستان آ رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی کی پروفائل تصاویر اتارے جانے کا سبب صرف سوشل میڈیا پر آنے والا ردعمل نہیں ہے بلکہ دیگر عوامل بھی ہیں۔
ذرائع کے مطابق سعودی حکومت پر ہر قسم کی تنقید کو اس وقت پاکستان میں ایران سعودی مخاصمت کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر سعودی ولی عہد کے دورے سے متعلق منفی پروپیگنڈے کا سد باب کیا جا رہا ہے۔
انگریزی اخبار ڈان سے وابستہ خارجہ امور کے صحافی باقر سجاد نے اتوار کو ٹوئیٹ کی کہ ایک تھانیدار نے ایک نجی ٹی وی چینل کے شعبہ ہیومن ریسورس کے ایک شخص کو فون کرکے پوچھا ہے کہ اس کے ادارے میں خاشقجی کی تصاویر لگانے والے صحافیوں کی سیاسی اور فرقہ وارانہ وابستگی کس سے ہے۔
باقر سجاد نے ایک اور ٹوئیٹ میں وزیراعظم کے ان احکامات کا بھی حوالہ دیا جو انہوں نے وزارت داخلہ کے ایک متنازعہ نوٹی فکیشن کی تحقیقات کے حوالے سے جاری کیے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ متنازعہ نوٹیفکیشن دو روز قبل سوشل میڈیا پر سامنے آیا تھا تاہم اس کے حقیقی ہونے کی تصدیق نہیں ہوسکی تھی۔