پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے کہاہے کہ قانون کہتا ہےکہ ایسا کوئی قانون نہیں کہ آپ کیس کوپنڈی میں چلائیں،کیس کی راولپنڈی میں سماعت کےخلاف بھی ہم نےاعتراض کیا ہے۔
ان کا کہناتھا کہ میں سمجھتاہوں یہ ضروری تھا کہ تاریخ کےلیےہم اعتراضات رکارڈ کرائیں،ابھی تک یہ موقع نہیں ملاکہ ہم اپنا موقف پیش کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہماراآئینی حق بنتاتھا ہمیں کورٹ میں پیش ہونےکا موقع دیتے،تاکہ موقف پیش کرتے،زبانی اورتحریری احکامات میں اتنا بڑا تضاد نہیں ہونا چاہیے،یہ تضادہماری عدالت کو بطورایک ادارہ کمزورکرتاہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ چیف جسٹس عدالت میں کہےبےگناہ کانام جےآئی ٹی میں ڈال دیا مگر فیصلہ کچھ،سنایاجاتاہے،ایسی کوئی قانونی رکاوٹ نہیں تھی کہ پنڈی میں کیس چلاناضروری ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ اگرمبینہ جرم سندھ میں ہوا،ایف آئی آر،مبینہ ثبوت سندھ میں ہیں اورکیس پنڈی میں،اگربینکنگ کورٹ،جےآئی ٹی،حکومتی نمائندے بھی سندھ میں ہیں اورکیس پنڈی میں۔
انہوں نے کہا کہ میرا تیسرا اعتراض یہ ہے کہ یہ نیب کیس کیسے بنتا ہے،نیب کا کیس ہوتا توپبلک فنڈز کی بات ہوتی،یہ پرائیویٹ ٹرانزیکشنزہیں،یہ کمپنیزکےٹرانزیکشنزہیں،بینک اکائونٹ کےٹرانزکشنزہیں،بلاول بھٹومیں اس پٹیشن کا بہت سنجیدگی سے لیتا ہوں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ سوموٹوکےکیسزوہ کیسزہوتےہیں،جوقانونی نکات،آئینی معاملات یاانسانی حقوق سےمتعلق ہوں،یہ کیس آرٹیکل 184/3 کےتحت سوموٹوکےدائرےمیں نہیں آتا، یہ فیصلہ کورٹ کریگی۔
انہوں نے کہا کہ اتنی سست روی کہ آپ نےالیکشن کےدوران سوموٹو لےکرکیس چلایا،بلاول
ہ بڑا اہم اعتراض ہے،بڑا آئینی سوال ہے،سپریم کورٹ سےاپیل ہےوہ بڑابنچ بنادیں تاکہ آئینی سوال کاجواب ملے
انہوں نے کہا کہ جب حتمی سماعت ہورہی تھی توچیف جسٹس فیصلہ سنارہےتھے،دلچسپ صورتحال پیداہوئی،چیف جسٹس نےجےآئی ٹی کےایک رکن کوبلاکرپوچھاکس کےکہنےپربلاول کانام جےآئی ٹی رپورٹ میں شامل کیا
انہوں نے کہا کہ اس سوال کا جواب ہمیں نہیں ملا،جوحکم چیف جسٹس نےسنایا، تحریری شکل میں وہ تھا ہی نہیں،یاتویہ معصومانہ کلرک کی غلطی ہےیامجھےوجہ بتائی جائےکہ ایساکیسےہوا۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہناتھا کہ چیف جسٹس نےجےآئی ٹی رکن سےپوچھاکس کےکہنےپربلاول کانام رپورٹ میں شامل کیا،اگرآپ ہمارےخلاف بھی فیصلہ سناتےہم تب بھی مانتے۔