اسلام آبادہائیکورٹ میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی طبی بنیادوں پر سزامعطلی کی درخواست پرفیصلہ محفوظ کر لیا ہےتاہم عدالت کی جانب سے فیصلہ سنانے کی کوئی تاریخ مقرر نہیں گئی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق وزیراعظم نواشریف کی العزیزیہ ریفرنس میں طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ نواز شریف کی بیماری سنجیدہ معاملہ ہے، ان کی بیماری پر چھپن چھپائی کا کھیل نہیں ہونا چاہیے، نوازشریف 2003, 2004, 2007 اور2008 میں دل کے عارضے پر اسپتال میں داخل ہوئے، ان کو 2011 میں علاج کے دوران بلڈ لیکج کی شکایت ہوئی جب کہ جولائی 2018 میں دل کی تکلیف پر اسپتال میں داخل کرایا گیا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ نوازشریف کو نئی میڈیکل رپورٹ میں انجیوگرافی تجویز کی گئی ہے، معاملہ اتنا سنجیدہ ہےکہ کوئی میڈیکل بورڈ یا ڈاکٹر ذمہ داری لینےکو تیار نہیں، گردے کے مرض کا علاج کرنے والا ڈاکٹر کلیئرنس دے گا تو انجیو گرافی ہوگی اور اس میں بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہا گیا ہے لہٰذا نوازشریف کی بیماری کا علاج جیل میں ممکن نہیں، ان کی جان کو خطرہ ہے۔
سابق وزیراعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ میڈیکل بورڈ نے نوازشریف کی انجیوگرافی کے نتائج کارڈیالوجسٹس سے بھی شیئر کرنے کا کہا لیکن 23 جنوری کو پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔
خواجہ حارث کے دلائل پر نیب پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ یہ جو رپورٹ چھپانے کا کہہ رہے ہیں وہ عدالتی ریکارڈ پر آچکی ہے۔دورانِ سماعت پنجاب حکومت کا نمائندہ بھی عدالت میں پیش ہوا۔
خواجہ حارث نے نمائندے کی موجودگی میں کہا کہ نوازشریف کی صحت خراب ہے اور یہ حساس معاملہ ہے لیکن پنجاب حکومت کے نمائندے نے گزشتہ سماعت پر حقائق چھپائے، بیماری کے معاملے پر تو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
اس دوران خواجہ حارث نے نوازشریف کی میڈیکل ہسٹری بھی عدالت میں پڑھ کر سنائی جس کے بعد سابق وزیراعظم کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔
عدالت عالیہ نے دلائل مکمل ہونے کے بعد نوازشریف کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔عدالت کی جانب سے فیصلہ سنانے کی کوئی تاریخ مقرر نہیں گئی ہے۔
واضح رہے کہ 24 دسمبر 2018 کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کوالعزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔