میجر جنرل آصف غفور نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی کے دو سینئر افسر جاسوسی کے الزام میں بالکل گرفتار ہیں لیکن ان کا کوئی نیٹ ورک نہیں ۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور کا کہناتھا کہ آرمی چیف نے ان دونوں افسران کے کورٹ مارشل کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔
ان کا کہناتھا کہ یہ دونوں الگ کیسز ہیں اور ان کا ایک دوسرے سے کوئی لینا دینا نہیں ، کورٹ مارشل مکمل ہونے کے بعدتفصیلات سے آگاہ کیا جائے گا ۔
آصف غفور کا کہناتھا کہ جنرل اسد درانی پر ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ثابت ہو گئی ہے اور ان عدالت نے ان کی پنشن سمیت دیگر مراعات ختم کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں جاسوسوں کے نام نہیں بتائے گئے لیکن صحافی وسیم عباسی نے اپنے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ جن 2 افسران کو گرفتار کیا گیا ہے وہ ایک عالمی جاسوسی کی ایجنسی کیلئے اپنا ضمیر فروش کر رہے تھے، ان افسران میں ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل اور ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر ہے۔
وسیم عباسی کے ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر صحافی و اینکر پرسن حامد میر نے کہا کہ جاسوسی کے الزام میں گرفتار ایک ملٹری آفیشل نے اپنی سروس کے دنوں میں بہت سے صحافیوں، سیاستدانوں اور اپنے ساتھی فوجیوں کی کردار کشی کی مہم چلانے کا حکم دیا تھا۔ اس شخص نے کچھ اینکرز کو لوگوں پر توہین رسالت ﷺ اور غداری کے الزامات لگانے کیلئے بھی استعمال کیا، لیکن اب اسے خود غداری کے الزام کا سامنا ہے۔
ملٹری آفیشلز کے عہدے بتا کر بات شروع کرنے والے صحافی وسیم عباسی نے ایک علیحدہ ٹویٹ میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار ریٹائرڈ افسران کے نام بھی بتادیے۔ انہوں نے بتایا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال اعوان اور بریگیڈیئر رضوان کو جاسوسی کے الزامات کا سامنا ہے اور دونوں ہی اہم عہدوں پر تعینات رہ چکے ہیں۔
خیال رہے کہ خفیہ ایجنسی میں اعلیٰ عہدے پر تعینات رہنے والے بریگیڈیئر (ر) رضوان راجہ اکتوبر میں اسلام آباد سے لاپتا ہوئے تھے۔
ان کی گمشدگی کے بعد ان کے بیٹے نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔ 15 نومبر کو کیس کی سماعت کے دوران وزارت دفاع نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ پاک فوج کی حراست میں ہیں اور ان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جارہی ہے۔