اپوزیشن جماعتوں کے پُرزور مطالبے پر حکومت نے بھارتی دراندازی کے واقعے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کرلیا۔
ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیرصدارت قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے موجودہ صورتحال پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے اس کی تائید کی۔
خورشید شاہ نے کہا کہ ہم حالات جنگ میں آچکے ہیں، اب پارلیمنٹ کو فیصلے کرنے چاہئیں، ایسی کوئی بات نہ کی جائے جس سے اختلاف نظر آئے، ہمیں دنیا اور بھارت کو اپنا اتحاد دکھانا ہے۔
خورشید شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم کہتے تھے کہ بھارت نےجارحیت کی توسوچیں گے بھی نہیں اور سوچنا چاہیے بھی نہیں، ہم حالت جنگ میں آگئے ہیں ، پارلیمنٹ بیٹھےاور فیصلہ کرے، ہمیں بھارت اور دنیا کو دکھانا ہے اور پورا ملک یکجا رکھنا ہے۔ بھارت اگر 40 کلومیٹر اندر آیا ہے تو ہم 80 کلومیٹر اندر داخل ہو جائیں۔ ہم بتائیں گے کہ جنگ اور الیکشن کیا ہوتا ہے پھر نریندر مودی کا الیکشن کا خواب کیسے پورا ہوتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف نے کہا کہ جس طرح یہ حکومت چلا رہے ہیں ایسے حکومت نہیں چلتی، او آئی سی میں سشما سوراج کو بلایا جانا پاکستان کی توہین ہے سفارتی سطح پرہماری ناکامی ہے جو بھارتی وزیرخارجہ کو او آئی سی میں بلایا گیا ، ہمیں اس معاملے پر او آئی سی کے اجلاس کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ سیاسی اختلافات کے باوجود پاکستان کے لیے ہم سب ایک ہیں، یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، عوام افواج پاکستان کے ساتھ ہے، یہ قومی سلامتی کامسئلہ ہے، فوری مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔
مسلم لیگ (ن) کے سردار ایاز صادق نے کہا کہ گزشتہ 5 سال میں پاکستان نے اسلامی تعاون کی تنظیم کی ہر پارلیمانی میٹنگ میں شرکت کی، لیکن اب پاکستان کو کسی صورت او آئی سی کے اجلاس میں نہیں جانا چاہیے، آو آئی سی کی ہمت کیسے ہوئی کہ اس نے بھارت کو گیسٹ آف آنر بلایا، کیا بھارت کو دعوت دینے سے پہلے کیا پاکستان سے پوچھا گیا تھا۔ ہمیں عزت سے جینا ہے یا بے عزتی کے ساتھ جینا ہے۔ بھارت کی طرح پاکستان کو بھی اپنی اشیاء کی برآمدات پر ڈیوٹی لگانے کی ضرورت ہے۔
وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے قومی اسمبلی میں اپنے بیان میں کہا کہ حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کر لیا۔
علی محمد خان نے کہا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کل ہو گا۔