میرٹھ میں مسلمان جلائے گئے گھروں کے ملبے پر کھڑے ہیں
میرٹھ میں مسلمان جلائے گئے گھروں کے ملبے پر کھڑے ہیں

بھارت میں پولیس- ہندو جتھے مسلمانوں کے گھر جلانے لگے

بھارت میں پولیس اور انتہاپسند ہندوؤں کے جتھوں نے مل کر مسلمانوں کے گھر جلانے کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔ تازہ واقعے میں جمعرات کو میرٹھ میں مسلمانوں کے 200 گھر جلا دیئے گئے۔  پولیس نے شرپسندوں کو پکڑنے کے بجائے 6 مسلمانوں کو ہی گرفتار کرلیا ہے اور ان پر پولیس پر پتھراؤ اور گاڑیاں جلانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

تاہم بھارت میں اقلیتیوں کی نمائندگی کرنے والے آن لائن جریدے کاروان ڈیلی نے انکشاف کیا ہے کہ مسلمانوں کے گھر جلانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں اور بالخصوص ریاست یوپی میں مسلمانوں کے گھروں پر حملوں کا سلسلہ تیز کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں دلت ہندوئوں کو اکسایا جاتا ہے اور انہیں مسلمانوں پر حملوں کیلئے آگے رکھا جاتا ہے تاکہ مسلمان علاقہ چھوڑ دیں۔

یوپی کا تاریخی شہر میرٹھ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے زیادہ دور نہیں۔ جمعرات کو مقامی کنٹونمنٹ بورڈ کے حکام پولیس اور ہندو جتھوں کے ساتھ یہاں بھوسہ منڈی کے علاقے میں پہنچے۔ ان کا مؤقف تھا کہ وہ تجاوزات ختم کرنے کے لیے آئے ہیں۔ تاہم اسی دوران انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کے گھروں میں آگ لگا دی جس کے بعد فساد شروع ہوگیا۔ بھارتی میڈیا نے شروع میں دعویٰ کیا کہ 150 جھگیاں جل گئی ہیں تاہم گذشتہ دو روز میں سامنے آنے والی ویڈیوز سے معلوم ہوا کہ یہ باقاعدہ مکانات تھے جنہیں آگ لگائی گئی۔

بھارت کے جن چند بڑے اخبارات نے اس واقعے کی خبر دی ان کا دعویٰ تھا کہ تجاوزات ختم کرنے کی کوشش کے دوران پولیس پر پتھرائو کیا گیا، پولیس اہلکاروں کے وائرلیس سیٹ بھی چھین لیے گئے جب کہ بسوں اور دیگر گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔ انڈیا ٹوڈے نے 150 جھگیوں کو آگ لگائے جانے کی خبر دی تاہم مسلمانوں کے مکانات کا ذکر کرنے سے گریز کیا۔

آن لائن جریدے کاروان ڈیلی کے مطابق میرٹھ واقعے کی حقیقت بتاتے ہوئے مقامی سجامی کارکن اور رہائی منچ کے رکن راجیو یادیو نے بتایا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں، جب سے ہم نے یوپی میں سماجی کارکن کے طور پر کام کا آغاز کیا ہم نے ایسے واقعات میں اضافہ ہی دیکھا ہے۔ یوپی میں کم شدت کا فرقہ وارانہ فساد بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ ایک فریق کو مضبوط کیا جائے، بیشتر واقعات میں کم مسلمان آبادی والے علاقوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جہاں دلتوں کو فساد بھڑکانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور ایجنڈا یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو خوفزدہ کیا جائے تاکہ وہ علاقہ چھوڑ دیں۔

راجیو یادیوں نے پولیس کے متعصبانہ کردار کے حوالے سے بتایا کہ ایسے واقعات میں جانی نقصان کم ہوتا ہے اور گرفتار ہونے والے مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، بیشتر جگہ گرفتار مسلمانوں پر نیشنل سیکورٹی ایکٹ تھوپ دیا جاتا ہے، جس پر نیشنل سیکورٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ بن جائے وہ عام لوگوں کی نظر میں ’’دیش دروہی‘‘ (غدار) قرار پاتا ہے، لہٰذا اصل ایجنڈا بہت بڑا ہے، وہ (انتہا پسند) چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو دیس مخالف قرار دے دیا جائے۔‘‘

ہندو مذہب سے ہی تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن راجیو یادیو انتہا پسندوں اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کاپول کھولنے والے واحد شخص نہں۔ سابق آئی جی پولیس ایس آر دراپوری نے بھی کہا کہ میرٹھ میں مسلمانوں پرعائد کیے گئے الزامات پر انہیں شکوک ہیں کیونکہ کوئی بھی شخص اپنے گھروں کو آگ نہیں لگائے گا نہ ہی پولیس انہیں آگ لگائے گی۔ انہوں نے کہاکہ  اس واقعے کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

سابق آئی جی کا کہنا تھا کہ پولیس اور میڈیا دونوں ہی مسلمانوں کے خلاف تعصب رکھتے ہیں۔ مین اسٹریم میڈیا ایسے واقعات کو نمایاں کرتا ہے جن میں اقلیتیوں کو مجرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جن معاملات میں اقلیتیوں پر ظلم ہوتا ہے انہیں دبا دیا جاتا ہے۔