پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بلیک میلنگ جاری رکھی توحالات کی ذمہ دار حکومت خود ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ احتجاج کی کال نہیں دی، عدالتوں میں مقابلہ کریں گے، ہمیں عدلیہ سے بہت امیدیں ہیں اور ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیب نے مجھ سے اس کمپنی کے بارے میں سوال پوچھے جس کا شیئر ہولڈر میں ایک سال کی عمر میں بنا، سابق چیف جسٹس نے کہا تھا کہ بلاول بے گناہ ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نیب میں پیشی ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ‘جب ایک دو سال کا تھا تب بینظیر بھٹو کے ساتھ جیلوں میں پیش ہوتا تھا۔’
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئےبلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کیخلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں،جب تین وفاقی وزرا کا کالعدم تنظیموں سے رابطہ ہوگا کوئی نیشنل ایکشن پلان پر کارروائی کو سنجیدہ نہیں لے گا میں مطالبہ کررہا ہوں کہ قومی سلامتی کمیٹی بنائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی الزام ہے تو وہ غیرجانبدار تحقیقات کے لیے تیار ہیں۔ اس کیس کا تعلق کراچی سے ہے لیکن دانستہ طور پر کیس کو راولپنڈی منتقل کیا گیا۔ ‘ہم کراچی کے کیس کو راولپنڈی منتقل کرنے کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے۔’
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ اسی پارٹی کی حکومت ہے جس نے اسلام آباد کو 200 دن کے لیے یرغمال بنائے رکھا، آج وہی حکومت پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو تیس منٹ برداشت نہیں کرسکی۔
بلاول کا کہنا تھا کہ یہ کیس نیب کا نہیں بنتا، بینک اکائونٹس کا معاملہ کیسے نیب کا کیس بنتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نیب کا ایک ماضی ہے، نیب پرویز مشرف کے دور میں بنا تاکہ سیاسی مخالفین کیخلاف استعمال کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ چھ ماہ کے دوران دیکھا کہ آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں، نیب قوانین کی تبدیلی تک کرپشن کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جو لوگ نیب سے خوش تھے وہ بھی نیب کا شکار بن گئے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے غیرجمہوری اور آمرانہ رویے کی مذمت کرتا ہوں،پولیس کے پُرتشدد رویے کے باوجود کارکنوں کی جرات، بہادری کو سلام پیش کرتا ہوں۔
چیرمین پی پی نے کہا کہ جمہوریت میں شہری کا حق ہے کہ احتجاج کرے، جب جمہوریت پسند کارکن اپنی آواز اٹھا کر آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہیں تو ان کے لیے پولیس سے تشدد کرایا جاتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کسی احتجاج کی کال نہیں دی اور نہ کسی کو نیب آنے کا کہا، جب ظلم ہوتا ہے تو پیپلزپارٹی کے کارکن اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔