سندھ پولیس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گھوٹکی میں دو ہندو بہنوں نے اپنی مرضی سے گھر چھوڑا اور اسلام قبول کیا انہیں کسی نے اغوا نہیں کیا۔ تاہم پولیس نے ان لڑکیوں کے اغوا پر چار افراد کے خلاف مقدمہ بھی درج کرلیا ہے۔ جس میں لڑکیوں کو 18 برس سے کم عمر تسلیم کیا گیا ہے۔ پولیس نے ایک شخص کو گرفتار بھی کیا ہے۔
سندھ پولیس کی جانب سے بیان ضلع گھوتکی کے شہر ڈہرکی میں میگھواڑ برادری کے ہندوؤں کی جانب سے احتجاج کے بعد سامنے ایا۔ جمعرات کو ہندو برادری نے قومی شاہراہ بلاک کردی۔ احتجاج کے بعد مقامی پولیس نے ہندو بہنوں کے اغوا کا مقدمہ درج کیا۔
مقدمے کے اندراج کے باوجود سندھ پولیس نے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں کہاکہ ’’گھوٹکی میں ہندو لڑکیوں کے مبینہ اغواء اور ضلع گھوٹکی میں ہندو برادری کے اس واقعہ کو لیکر احتجاج کے حوالے سے الیکٹرانک/ سوشل میڈیا رپورٹس کے تناظر میں ایس ایس پی گھوٹکی نے رپورٹ میں آئی جی سندھ ڈاکٹر سیدکلیم امام کو بتایا کہ لڑکیوں کے ویڈیو ریکارڈڈ بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں کسی نے اغواء نہیں کیا اور نہ ہی یرغمال بنایا ہے ہم نےاپنی مرضی سے اپنے گھروں کو چھوڑا اور بلا کسی جبر یا دباؤ کے اسلام قبول کیا ہے۔ہمیں پولیس تحفظ فراہم کیا جائے۔‘‘
پولس نے مزید کہا کہ ’’لڑکیوں کے ویڈیو ریکارڈڈ بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں کسی نے اغواء نہیں کیا اور نہ ہی یرغمال بنایا ہے ہم نےاپنی مرضی سے اپنے گھروں کو چھوڑا اور بلا کسی جبر یا دباؤ کے اسلام قبول کیا ہے۔ہمیں پولیس تحفظ فراہم کیا جائے۔‘‘
سندھ پولیس نے اس بیان کے ساتھ ٹوئٹر پر ایک ویڈیو بھی پوسٹ کی جس میں دونوں لڑکیاں پہلے کلمہ طیبہ پڑھتی ہیں اور پھر سندھی میں کہتی ہیں کہ وہ اپنی خوشی سے آئی ہیں، پولیس انہیں تحفظ فراہم کرے۔
https://twitter.com/sindhpolicedmc/status/1108685570853818368
یہ وہی ویڈیو ہے جو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی اور یہ بیس سیکنڈ کی ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق مکمل ویڈیو میں لڑکیوں نے اپنا اسلامی نام آسیہ اور شازیہ بتایا اور کہا کہ خدشہ ہے کہیں پولیس ہمیں گرفتار کرکے واپس والدین کے پاس نہ بھیج دے۔
جمعرات کو ضلع گھوٹکی بھر کی میگھواڑ کمیونٹی کی طرف سے ڈہرکی بائی پاس پر قومی شاہراہ کو بند کردیا گیا، جس سے 3 گھنٹے ٹریفک معطل رہی اور گاڑیوں کی لمبی قطاریںلگ گئیں۔
مظاہرین دھرنا دے کر بیٹھے رہے۔ دھرنے میں موجود ایک نوجوان نے خود کو لڑکیوں کا بھائی بتاتے ہوئے کہاکہ دونوں لڑکیوں کو بدھ کے روز گھر سے اغوا کیا گیا، لیکن نہ تو پولیس نے ان کی مدد کی نہ وڈیروں کی طرف سے کوئی دادرسی ہوئی۔
لڑکیوں کا تعلق گاؤں حافظ سلمان سے ہے۔
دھرنے میں نوجوان کا کہنا تھا کہ بڑی بہن کا نام روینہ اور چھوٹی کا رینا ہے۔ مظاہرین کا مؤقف تھا کہ لڑکیوں کی عمریں 15 اور14 برس ہیں اور قانونی طور پر وہ نابالغ ہیں۔
نمائندہ امت کے مطابق ڈہرکی میں ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کی طرف سے 24گھنٹے کے اندر مذکورہ لڑکیوں کو بازیاب کراکے عدالت میں پیش کرنے کی یقین دہانی پر 3 گھنٹے بعد دھرنا ختم کیا گیا، اور مظاہرین منتشر ہوگئے، ڈہرکی تھانے پر پولیس نے لڑکیوں کے والد ہری لال کی مدعیت میں تین افراد صفدر، برکت ملک اور احمد شاہ کے خلاف مذکورہ لڑکیوں کو اغوا کرنے کا مقدمہ درج کرلیا ہے، جبکہ ایک چوتھے شخص احمد شاہ پر سہولت کاری کا الزام ہے۔ جسے پولیس نے گرفتار کرلیا۔
پولیس کی جانب سے درج ایف آئی آر میں روینہ کی عمر 14 یا 15 برس اور ارینا کی عمر 12 یا 13 برس قرار دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ سندھ میں 18 برس سے کم عمر شخص کی شادی نہیں ہوسکتی۔ کچھ برس قبل سندھ میں 18 برس سے کم عمر افراد کے تبدیلی مذہب پر پابندی کا بل منظور کرانے کی کوشش بھی کی گئی تھی جو ناکام ہوگئی تھی۔
ڈہرکی کے واقعے کے بعد سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے جب کہ وزیراعظم عمران خان سے بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ جس طرح ہندوؤں کے خلاف بیان پر انہوں نے پنجاب کے وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان سے استعفیٰ لیا اسی طرح اس واقعے پر بھی کارروائی کی جائے۔