جامعہ دارالعلوم کے نائب مہتمم اور ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمانی کا کہنا ہے کہ ان کی اور اہلخانہ کی جان ڈرائیور کی مہارت اور بہادری کی وجہ سے بچی۔
دارالعلوم کراچی میں عصر کے وقت نمازیوں کو حملے کی تمام روداد بتاتے ہوئے مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ ‘حملے کے وقت میرے ساتھ میری اہلیہ اور دو پوتا، پوتی موجود تھے، اگلی سیٹ پر پولیس کی جانب سے فراہم کیا گیا محافظ موجود تھا جبکہ ڈرائیور حبیب گاڑی چلا رہا تھا۔’
انہوں نے بتایا کہ ‘جب ہم راشد منہاس روڈ پر پہنچے تو اچانک ہماری گاڑی پر تین طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی جس سے ڈرائیور کو دائیں کندھے پر گولی لگی جبکہ محافظ کو سر پر گولی لگی، لیکن اللہ کے فضل و کرم سے میں، اہلیہ اور بچے محفوظ رہے اور ہمیں گاڑی کے شیشوں کے ٹکڑے لگنے کی وجہ سے چند زخم آئے۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘حملہ آوروں کا مقصد شاید پورا نہیں ہوا تھا اس لیے وہ فائرنگ کے بعد دوبارہ پلٹے اور پھر چاروں طرف سے گولیاں برسائیں جس سے محافظ کو مزید گولیاں لگیں اور وہ شہید ہوگیا جبکہ ڈرائیور نے زخمی ہونے کے باوجود انتہائی مہارت اور جانثاری کا ثبوت دیتے ہوئے گاڑی کو آگے بڑھایا۔’
مفتی تقی عثمانی نے بتایا کہ ‘گولی لگنے کی وجہ سے ڈرائیور تکلیف میں تھا اس لیے میں نے اس سے کہا کہ میں گاڑی چلا کر ہسپتال لے چلتا ہوں لیکن اس نے تیسری بار حملے کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے مجھے گاڑی چلانے سے روکا اور تیزی سے خود گاڑی چلا کر لیاقت ہسپتال پہنچا۔’
انہوں نے کہا کہ ‘ہسپتال میں ڈاکٹروں نے محافظ کو مردہ قرار دیا جبکہ زخمی ڈرائیور کی حالت کو خطرے سے باہر بتایا۔’
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پیچھے دوسری گاڑی میں بھی صنوبر نامی دارالعلوم کے محافظ کو بھی گولیاں لگیں جس سے وہ شہید ہوگیا جبکہ ڈرائیور عامر کی حالت تشویشناک ہے۔