نواز شریف کی 6 ہفتوں کے لیے طبی بنیادوں پر ضمانت منظور

سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی 6 ہفتوں کے لیے طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست منظور کرلی،انہیں اپنی مرضی سے علاج کی اجازت ہوگی تاہم اس دوران وہ بیرون ملک نہیں جاسکیں گے۔ضمانت 50 لاکھ کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی گئی ہے

نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے نواز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

سماعت پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور قومی احتساب بیورو کے وکلا نے دلائل دیئے اور نواز شریف کے وکیل نے لندن رپورٹ کی تفصیلات بتائیں

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے اضافی دستاویز جمع کروائی ہے، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ یہ ڈاکٹر لارنس کا خط ہے۔

وکیل کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو انہوں نے کسی ڈاکٹر عدنان کے نام خط لکھا ہے، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ڈاکٹر عدنان نواز شریف کے پرنسپل فزیشن ہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ یہ خط کس نے کس کو لکھا، یہ تو 2 عام لوگوں کے درمیان کی بات چیت ہے، یہ تو آپ نے جمع کرایا تو ہم نے اسے پڑھ لیا، اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ میں اپنے کیس میں اس خط کے اوپر انحصار نہیں کر رہا۔

درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے میرٹ کی بنیاد پر دائر درخواست واپس لے لی تھی، جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ کیونکہ نواز شریف کی صحت کا معاملہ بعد میں سامنے آیا، نوازشریف کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے 5 میڈیکل بورڈ بنے، تمام میڈیکل بورڈز نے نوازشریف کو ہسپتال داخل کرانے کی سفارش کی۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی صحت خراب ہونے پر ڈاکٹرز نے معائنہ کیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹر لارنس کا خط عدالت کے نام نہیں، یہ تو ایسا ہے کہ جیسے کسی ’مسٹر اے نے مسٹر بی‘ کو خط لکھا ہو۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس خط کی قانونی حیثیت کیا ہے، اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ خط میں صرف طبی تاریخ ہے، جیل میں نواز شریف کی طبیعت خراب ہوئی،اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف کی رپورٹس کا جائزہ لے چکے ہیں۔

دلائل جاری رکھتے ہوئے خواجہ حارث نے کہا کہ ذیابیطس اور ہائپر ٹینشن روز بہ روز بڑھ رہے ہیں، ان کا عارضہ قلب تیسرے درجے میں داخل ہوچکا ہے، تمام میڈیکل بورڈ کی سفارشات ہیں کہ نواز شریف کا اسپتال میں علاج ہے، ان سفارشات کی روشنی میں نواز شریف کا علاج ضروری ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ آپ نے نواز شریف کی میڈیکل تاریخ سے متعلق ڈاکٹر لارنس کا خط پیش کیا، کیا نواز شریف کی طبی صورتحال سے متعلق صرف یہ ہی ایک ثبوت ہے، آپ ہمیں نواز شریف کی میڈیکل تاریخ بتا رہے اور صرف ایک ثبوت پیش کیا۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ نے ایک خط پیش کیا، ہمیں نہیں معلوم ڈاکٹر لارنس کون ہے اور ڈاکٹر عدنان کون ہے، نواز شریف پچھلے 15 سالوں سے ان بیماریوں کا سامنا کر رہے ہیں، ہم دیکھنا چاہتے ہیں کیا ان بیماریوں کی بنیاد پر ضمانت ہوسکتی ہے، یہ بیماریاں بہت پرانی ہیں۔

 

انہوں نے کہا کہ کیا فوجداری مقدمات میں محض ایک خط کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے،آپ کا تمام انحصار ڈاکٹر لارنس کے خط پر ہے، آپ جو بھی تاریخ بتا رہے ہیں یہ تو پرانی ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے ثابت کرنا ہے کہ نواز شریف کی صحت بگڑ رہی ہے، یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ جیل میں رہنے سے نوازشریف کی جان کو خطرہ ہے، لوگوں کی کئی طرح کی میڈیکل تاریخ ہوتی اور وہ بچ جایا کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گھر جانے اور ذہنی دباؤ ختم ہونے پرکیا نواز شریف پاکستانی طبی سہولیات سے مطمئن ہونگے؟ اگرمان لیں کہ صورتحال بگڑرہی ہے تو کیا ہم طبی سہولت میں آپ کی مدد کرسکتے ہیں؟۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر آپ نے کہا تھا کہ نوازشریف کو اپنے ڈاکٹر پر اعتماد ہے، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت دی گئی۔

اس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فرض کریں ہم 3 سے 4 ہفتوں کے لیے ضمانت دے دیں تو کیا اس عرصے کے دوران نواز شریف کا ذہنی دباو کم ہوجائے گا، نواز شریف ملزم ہیں ہم کچھ روز کے لیے ضمانت دے بھی دیں تو واپس ان کو جیل جانا ہوگا۔

عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ان کے وکیل سے پوچھا کہ بتائیں نواز شریف کی سابق اور موجودہ میڈیکل تاریخ کیا ہے، رپورٹس بتاتی ہیں کہ نوازشریف کو دل کا عارضہ ہے، جاننا چاہتے ہیں کہ کیا نواز شریف کی جان کو خطرہ ہے؟ بتائیں نوازشریف کی میڈیکل تاریخ سے صورتحال کیسےمختلف ہے، صحت کیسے بگڑ رہی ہے؟

 

اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نوازشریف کو 7 میڈیکل اسٹنٹس ڈالے جا چکے ہیں،انجائنا سے دل کو نقصان پہنچ سکتا ہے، تمام بورڈ ز نے کہا ہے کہ نوازشریف کی انجیو گرافی کی ضرورت ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نواز شریف کے موجودہ رپورٹ میں کوئی خطرے کی بات نہیں، پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق نواز شریف 2003 سے عارضہ قلب میں مبتلا ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ خرابی صحت کی بنیاد پر زندگی کو خطرہ لاحق تو نہیں، سپریم کورٹ نے طے کیا ہے کہ اگر ملزم کی صحت خراب ہو اور جیل میں سہولت نہ ہو تو ضمانت دی جا سکتی ہے۔

وکیل کے دلائل پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان کے اسپتال اس قابل ہیں جہاں نواز شریف کا علاج ہوسکے، آپ جس اسپتال کا کہیں گے اس میں علاج کے اجازت دے گی۔

جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ میرے موکل کو ضمانت کی ضرورت ہے، جیل میں قید کی وجہ سے امراض شدت اختیار کر چکے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ 2 ہفتوں میں فیصلہ کر دی گی، ہم ہائی کورٹ کو حکم دیتے ہیں کہ کیس کو سنے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا 8 ہفتے بعد آپ کے موکل واپس آجائیں گے، اگلے ماہ کی 9 تاریخ کو ہائیکورٹ میں آپ کی اپیل پر سماعت بھی ہے، اگر وہاں سے فیصلہ آپ کے خلاف آ جاتا ہے تو کیا کریں گے۔

جس پر خواجہ حارث نے کہا ابھی تک صرف نوٹس ہوئے ہیں جو مجھے موصول بھی نہیں ہوئے، 4 ہزار صفحات ہیں اتنا جلدی فیصلہ ممکن نہیں ہے، جہاں تک علاج کا تعلق ہے میرے موکل کی زندگی داؤ پر ہے، علاج مکمل ہونے کے بعد خود کو عدالت کے حوالے کر دینگے۔

 

سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کسی بھی رپورٹ میں نواز شریف کے بیماری کے بارے میں نہیں لکھا گیا، صرف معائنے کی سفارش کی گئی ہے۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ نواز شریف کی 24 گھنٹے نگرانی کی جا رہی ہے، ان کو کوئی جان لیوا بیماری لاحق نہیں ہے اور نہ ہی ان کی جان کو کوئی خطرہ ہے۔

اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ اگر جان کو خطرہ نہیں تو میڈیکل بورڈ انجیوگرافی کا کیوں کہہ رہے ہیں، ساتھ ہی جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آپ نواز شریف کو ایک اسپتال سے دوسرے ہسپتال منتقل کرتے رہے، کسی رپورٹ میں نہیں کہا گیا کہ انہوں نے علاج کروانے سے انکار کیا ہے۔

بعد ازاں عدالت میں نواز شریف کے وکیل اور نیب پراسیکیوٹر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے کچھ دیر بعد سناتے ہوئے عدالت نے درخواست ضمانت منظور کرلی۔

عدالتی فیصلے میں نواز شریف کی سزا کو 6 ہفتوں کے لیے معطل کیا گیا اور درخواست ضمانت کو منظور کی گئی، ساتھ ہی یہ حکم دیا گیا کہ ضمانت کی مقررہ میعاد پوری ہونے پر نواز شریف کو حراست میں لے لیا جائے گا، نواز شریف اس دوران اپنے وسائل سے اپنی مرضی کے معالج سے علاج کروا سکیں گے۔

تاہم عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں ہوگی اور انہیں 6 ہفتوں کی ضمانت پر 50 لاکھ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کروانے ہوں گے۔