کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں فیکٹری میں آتشزدگی کیس کی سماعت کے دورانارشد نامی چشم دید گواہ نے یہ بیان منگل کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ریکارڈ کرایا۔
ارشد نامی چشم دید گواہ نے عدالت کے روبرو بتایا کہ ملزمان نے پہلے چرس پی اور اس کے بعد کیمیکل چھڑک کرفیکٹری کو آگ لگادی۔
کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں سانحہ بلدیہ کیس کی سماعت ہوئی، اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر نے جان کے خطرے کے باعث مقدمے کے روپوش چشم دید گواہ کو پیش کردیا۔ چشم دید گواہ نے ملزم زبیرچریا کو شناخت کرلیا۔
چشم دید گواہ ارشد نے بتایا کہ وہ بطور الیکٹریشن کام کرتا تھا، جس روز یہ واقعہ رونما ہوا اس روز زبیر چریا نے اس کہا کہ آج کچھ مہمان آئیں گے شام کو ملنا۔
‘شام کو پانچ مہمان آئے جن کا تعلق فیکٹری سے نہیں تھا ان میں سے تین حلیے سے بلوچ معلوم ہوتے تھے جبکہ دو اردو اسپیکنگ تھے۔
زبیر چریا نے کہا کہ یہ میرے مہمان ہیں انہیں واش روم میں لے جاؤ جہاں چریا بھی آگیا اور سب نے چرس پی جس کے بعد وہ اپنے کام پر چلا گیا۔
گواہ کے مطابق زبیرچریا نے اس کے سامنے اپنی جیب سے تھیلیاں نکال کرگودام میں موجود کپڑے پرپھینکیں اورآگ لگنے پرزبیر چریا مسکراتا رہا جب کہ زبیر چریا کے دیگر ساتھیوں کو بھی شناخت کرسکتا ہوں۔
سماعت کے دوران ملزمان کے وکلا کی عینی شاہد کے بیان پر جرح مکمل ہوگئی۔ عدالت نے سماعت پربیان کیلئے جوڈیشل مجسٹریٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کل 3 اپریل تک ملتوی کردی۔
کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں واقع کارخانے علی انٹرپرائزز میں 12 ستمبر سنہ 2012 کو آگ بھڑک اٹھی تھی جس کے نتیجے میں 259 افراد جھلس کر ہلاک ہوگئے تھے۔
ابتدائی طور پر آتشزدگی کے اس واقعے کو حادثاتی قرار دیا گیا تھا لیکن بعد میں جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم نے اسے تخریب کاری قرار دیا اور تحریری رپورٹ میں یہ کہا تھا کہ بھتہ نہ ملنے پر فیکٹری میں آگ لگائی گئی تھی۔