سری لنکا میں گزشتہ دنوں کئی بم دھماکے ہوئے جن میں 359افراد لقمہ اجل بن گئے۔ بعد ازاں شدت پسند تنظیم داعش نے ان حملوں کی ذمے داری قبول کی اور سری لنکا کے ایک وزیر نے کہا کہ ”ممکنہ طور پر تنظیم نے ان حملوں کے ذریعے نیوزی لینڈ میں مساجد پر ہونے والے حملے کا بدلہ لیا ہے۔“
اس ساری صورتحال میں مسلمانوں کے خلاف دیگر مذاہب کے لوگ شدت پسندانہ کارروائیاں کر رہے ہیں جس پر سری لنکا میں مقیم پاکستانی بھی گھر چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
مذہب کی بنیاد پران ہنگاموں کا آغاز سری لنکا کے قصبے نیگومبو سے ہوا جہاں سیکڑوں پاکستانی مقیم تھے اور وہ قصبہ چھوڑ کر نکل جانے پر مجبور ہو گئے۔
رپورٹ کے مطابق یہ پاکستانی خاندان کئی بسوں پر سوار ہو کر قصبے سے نکلے۔ ان کے لیے ان بسوں کا انتظام کمیونٹی لیڈرز اور پولیس نے کیا تھا، کیونکہ قصبے میں اب ان کی جانوں کو شدید خطرات لاحق ہو چکے تھے۔
عدنان علی نامی ایک پاکستانی نے عالمی خبررساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”گزشتہ دنوں جو دھماکے ہوئے ہیں ان کی وجہ سے سری لنکا کے مقامی لوگ مسلمانوں کے گھروں پر حملے کر رہے ہیں۔ ہم نے قصبہ تو چھوڑ دیا ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ ہمیں اب کہاں جانا ہے۔ “
فرح جمیل نامی پاکستانی خاتون کا کہنا تھا کہ ”دھماکوں کے بعد میرے مالک مکان نے مجھے گھر سے نکال دیا۔ اس نے کہا کہ میرے گھر سے نکلو اور جہاں مرضی جاﺅ۔ اب تم مزید میرے گھر میں نہیں رہ سکتی ہو۔“
رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے گھروں پر حملوں کے الزام میں پولیس نے متعدد افراد کو حراست میں بھی لیا ہے تاہم ان کی حتمی تعداد سامنے نہیں آ سکی۔ پولیس کے مطابق ان دھماکوں کی وجہ سے 2014ءوالی صورتحال جنم لیتی نظر آ رہی ہے۔
واضح رہے کہ 2014ءمیں بھی مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر دنگے ہوئے تھے اور سینکڑوں مسلمان مارے گئے تھے۔