ملکی عدالتی نظام باقاعدہ طور پر پہلی مرتبہ جدید خطوط پراستوارہو گیا،اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے ویڈیو لنک کے ذریعے مقدمات کی سماعت کی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ ملکی تاریخ میں پہلی بار ویڈیو لنک کے ذریعے مقدمات کی سماعت کر رہا ہے اوراعلیٰ عدالت کو4 مقدمات کی سماعت بذریعہ ویڈیو لنک کرنا ہے۔
ابتدائی طور پرای مقدمات کی سہولت اسلام آباد ہائیکورٹ اورسپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے لیے دستیاب ہے۔
ای کورٹ سسٹم کے پہلے مقدمے کی سماعت
سپریم کورٹ اسلام آباد سے کراچی رجسٹری میں ویڈیو لنک کے ذریعے قتل کیس کے ملزم نورمحمد کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی جس کے دوران ملزم کے وکیل یوسف لغاری ایڈووکیٹ نے درخواست پر دلائل دیے۔
عدالت نے قتل کے ملزم نور محمد کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرلی جس کے خلاف پولیس اسٹیشن شاداب پور میں 2014 میں قتل کا مقدمہ درج ہوا تھا۔
ای کورٹ کے دوسرے مقدمے کی سماعت
سپریم کورٹ نے اقدام قتل کے 2 ملزمان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں خارج کردیں جس کے بعد سندھ پولیس نے کراچی رجسٹری سے ارباب اور مشتاق نامی ملزمان کو گرفتار کرلیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے ‘قتل کی نیت کرنا بھی جرم ہے، دفعہ 324 میں ارادہ قتل سے حملہ کرنے کی سزا 10 سال ہے، حملے کے نتیجے میں اگر زخم آئے تو اس کی سزا الگ ہوگی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا اقدام قتل کا کیس قتل سے زیادہ سخت ہوتا ہے، حملہ آور کی نشاندہی زخمی کرسکتا ہے مقتول نہیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آئی ٹی کمیٹی کے ممبران جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مشیر عالم کو خراج تحسین پیش کیا اور چیئرمین نادرا اور ڈی جی کی کاوشوں کو بھی سراہا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں یہ ایک بڑا قدم ہے، ‘ای’ کورٹ سے کم خرچ سے فوری انصاف ممکن ہو سکے گا، دنیا بھر میں پاکستان کی سپریم کورٹ میں ہی ‘ای’ کورٹ سسٹم کا پہلی مرتبہ آغاز ہوا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ‘ای’ کورٹ سے سائلین پر مالی بوجھ بھی نہیں پڑے گا، اس سسٹم کو پورے پاکستان تک پھیلائیں گے اور اگلے مرحلے میں کوئٹہ رجسٹری میں ای کورٹ سسٹم شروع کریں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا ‘عینی شاہدین کے مطابق نامعلوم افراد نے قتل کیا، اس کیس کے نامزد ملزمان اس واقعے میں ملوث نہیں اور مقامی پولیس نےکیس کی تفتیش میں بدنیتی کا مظاہرہ کیا’۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا شریک ملزمان غلام حسین اور غلام حیدر پہلے ہی ضمانت پر ہیں۔
سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے ضمانت کی درخواست کا تاخیر سے فیصلے پر چیف جسٹس نے نوٹس بھی لے لیا اور کہا کہ 2014 میں وقوعہ ہوا، ٹرائل کورٹ نے 2016 میں ضمانت خارج کی اور سندھ ہائیکورٹ نے 2016 سے 2019 تک درخواست ضمانت کا فیصلہ نہیں کیا، اس طرح کے معاملات ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کے خلاف ہیں۔
عدالت نے سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل کو ہدایت کی کہ وہ ہائیکورٹ کے فیصلےکی کاپی لیں جب کہ عدالت نے سندھ ہائیکورٹ کے ججز کی ضمانت اپیلوں کی فیصلوں سے متعلق 2 ہفتوں میں رپورٹ بھی طلب کرلی۔
چیف جسٹس نے کہا رپورٹ چیئرمین جوڈیشل کونسل کو 2 ہفتوں میں بھیجیں تاکہ مناسب اقدام کیا جائے۔