جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ کیا معلوم کل کسی کے کہنے پر پولیس مجھے ملزم بنا دے۔
سپریم کورٹ میں شوہر کے قتل کے الزام میں گرفتار خاتون کی درخواستِ ضمانت کی سماعت ہوئی تو عدالت نے پچاس ہزار روپے کے مچلکے کے عوض درخواست منظور کرتے ہوئے ملزمہ کی رہائی کا حکم دیا۔
عدالت نے پنجاب پراسیکیوشن اور پولیس پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پولیس کا ادارہ جعلی مقدمات کے ذریعے پیسے بنانے کیلیے نہیں، تمام تفتیشی افسران کو ایک ایک ماہ جیل بھجوانا پڑے گا، تفتیشی افسران کو علم ہونا چاہیے کہ جیل کیا ہوتی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انصاف کیلئے سب سے پہلا فورم پولیس ہوتی ہے، صرف کسی کے کہنے پر حاملہ خاتون کو ملزم بنا دیا، کیا معلوم کل کسی کے کہنے پر پولیس مجھے ملزم بنا دے، تفتیشی افسر کو یہ بھی معلوم نہیں مقتول کے بھائی شادی شدہ ہیں یا نہیں۔
جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ کسی کو شرم ہے نا حیا، پنجاب پولیس آخر کر کیا رہی ہے، گرفتاری کے وقت خاتون تین ماہ کی حاملہ تھی، خاتون نے جیل میں بچے کو جنم دیا، حاملہ خاتون اپنے شوہر کو بلاوجہ کیسے قتل کر سکتی ہے۔
واضح رہے کہ رفعت نورین پر 2018 میں شوہر کو قتل کرنے کا الزام ہے۔