فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے سندھ کو کرپٹ ترین صوبہ قرار دیدیا

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ سندھ کرپٹ ترین صوبہ ہے جہاں بجٹ کا ایک روپیہ بھی عوام پر خرچ نہیں ہوتا۔

سپریم کورٹ میں سکھر پریس کلب مسمار کرنے کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ سندھ ہر لحاظ سے کرپٹ ترین صوبہ ہے، جس کا ہر محکمہ ہر شعبہ ہی کرپٹ ہے، بدقسمتی سے وہاں عوام کیلیے کچھ نہیں ہے اور صوبائی بجٹ کا ایک روپیہ بھی عوام پر خرچ نہیں ہوتا، لاڑکانہ میں ایچ آئی وی کی صورتحال دیکھیں، دیکھتے دیکھتے پورا لاڑکانہ ایچ آئی وی پازیٹو ہوجائے گا۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سکھر شہر میں بجلی ہے نہ پانی، شہریوں کے پاس پینے کیلئے پانی ہے نہ واش روم کیلئے، یہ گرم ترین شہر ہے لیکن عوام کثیر منزلہ عمارتوں میں رہتے ہیں، شہر کی ایسی تیسی کردی گئی ہے، گرم شہروں میں کثیر منزلہ عمارتیں نہیں بن سکتیں، وہاں کے میئر صاحب کثیر منزلہ عمارتیں گراتے کیوں نہیں ہیں؟۔

جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ پارکوں میں کوئی بزنس یا کاروبار نہیں چلنے دینگے، ہمیں پارک ہر صورت خالی چاہئیں، کراچی میں ہم نے ایدھی اور چھیپا کی ایمبولنس بھی پارکوں سے ہٹوا دیں، پہلے کراچی سے نمٹ لیں پھر سکھر کی طرف آئیں گے،  میڈیا عوام کی خبر لگائے تو اشتہار بند ہوجاتے ہیں، صحافی بھی عوام کے مسائل کی خبریں نہیں لگاتے، عوام کو بنیادی سہولیات نہ ملیں تو وہ پُرتشدد ہوجاتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ سکھر پریس کلب کو شہر کے درمیان میں ہی جگہ دیں، پریس کلب انتظامیہ اور کمشنر سکھر ایک ہفتے میں متبادل جگہ کا انتخاب کریں۔ عدالت نے سماعت ایک ہفتے کیلیے ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ کے سینئر جج نے ریمارکس دیے ہیں کہ زیادہ تر پولیس اہلکار رات کو ڈکیتیاں کرتے ہیں، پورے ملک میں پولیس کا نظام فلاپ ہوُچکا ہے، پولیس نام کی کوئی چیز نہیں، ملک میں ڈکیتیاں ہو رہی ہیں، لوگ گلے کاٹ رہے ہیں پولیس کہاں ہے۔

سپریم کورٹ میں پنجاب کے ٹریفک وارڈنز کی تنخواہوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی تو جسٹس گلزاراحمد نے پنجاب کے سیکریٹری خزانہ اور آئی جی پر اظہار برہمی کیا۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ پورے ملک میں پولیس کا نظام فلاپ ہوُچکا ہے، ملک میں پولیس نام کی کوئی چیز نہیں، پولیس آخر ایسا کیا کر رہی ہے جو تنخواہ بڑھائی جائے؟، سرکاری افسران دفاتر میں بیٹھ کر حرام کھا رہے ہیں، بھاری تنخواہیں لیکر بھی دو نمبریاں کی جاتی ہیں، صرف اس بات کی فکر ہے کہ اپنے الاؤنس کیسے بڑھانا ہیں۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ  ملک میں ڈکیتیاں ہو رہی ہیں، لوگ گلے کاٹ رہے ہیں پولیس کہاں ہے؟ سب نہیں زیادہ تر پولیس اہلکار رات کو ڈکیتیاں کرتے ہیں، پولیس اور سرکاری افسران تنخواہ الگ لیتے ہیں اور عوام سے الگ لیتے ہیں۔

سیکریٹری خزانہ کے اپنے بیان سے مکرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سیکرٹری خزانہ پنجاب کو شاید پتا ہی نہیں انکا کام کیا ہے، آپ کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ کھڑے کھڑے ہی بات سے مُکر گئے، پورا صوبہ پنجاب کا خزانہ آپ کے ہاتھ میں ہے اور آپ کو کچھ کام کا پتا ہی نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ جس کو دل کرے جتنا دل کرے آپ دیدیں، آپ صرف دفتر میں بیٹھ کر اپنے پیسے بنانے کی سوچتے ہیں۔

صوبائی سیکریٹری خزانہ نے جواب جمع کرایا کہ ٹریفک وارڈنز کی منجمد ہونے والی اضافی بنیادی تنخواہ بحال کر رہے ہیں، اضافی بنیادی تنخواہ نہیں صرف منجمد ڈیلی الاؤنس بحال ہوگا۔ ٹریفک وارڈنز کے وکیل نے کہا کہ تنخواہ بحال ہوجائے تو مسئلہ ہی ختم ہوجائے گا۔

عدالت نے سماعت دو ہفتے کیلئے ملتوی کرتے ہوئے سرکاری وکیل کو مزید تیاری کیساتھ پیش ہونے کی ہدایت کردی۔