سپریم کورٹ میں جج ارشد ملک کی وڈیو سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی جس میں اعلیٰ عدلیہ نے کمیشن بنانے کی تجویزپراٹارنی جنرل سے رائے مانگ لی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جج ارشد ملک کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تو ہائیکورٹ میں کیس متاثر ہوگا، ہائیکورٹ خود مختار ادارہ ہے اسے اپنا کام کرنے دیں۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ اصل معاملہ عدلیہ کی ساکھ ہے، لوگوں کو عدلیہ پر اعتماد نہیں ہوگا تو انصاف کیسے ہوگا، بنیادی مسئلہ ہی عدلیہ کے اعتماد کا ہے۔
درخواست گزار اکرام چوہدری نے کہا کہ عوام کا عدلیہ پر احترام مجروح ہوا ہے، اس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں ہدایت دینے کی ضرورت نہیں کہ تحقیقات کیسے ہوں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معاملے میں غیر معمولی باتیں بھی ہیں، تحقیقات کس مرحلے پر ہوں، سوال یہ ہے کہ تحقیقات کس طرح سے کی جائے۔
معزز چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگر سپریم کورٹ اس معاملے کو دیکھتی ہے تو اس کے کیا اثرات ہوں گے، اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ اس معاملے کودیکھنے کی ضرورت ہے، ہمارے سامنے مسئلہ اور ہے کہ یہ معاملہ کس کو اور کب دیکھنا چاہیے، یہ معاملہ پہلے ہی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
وکیل صفائی نے کہا کہ حکومت کو بھی کمیشن بنانے کا اختیار ہے، اس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جب سب کچھ سپریم کورٹ کرتی ہے تواعتراض ہوتا ہے، جج کے مس کنڈکٹ کو بھی جاننا ہے، عنقریب ہم کچھ چیزیں طے کریں گے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت کے جج لاہور ہائی کورٹ کے ماتحت تھے، وفاقی حکومت نے جج کی ڈیپوٹیشن پر تقرری کی۔
چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ ویڈیوکی ساخت کا معاملہ ہے، فورم کون سا ہوگا، پرائیوٹ ویڈیو کیسے بنائی؟ کیسے پبلک ہوئی؟ اس کو بھی دیکھنا ہے، عدلیہ سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کرنا درست نہیں، اگر کسی کے کہنے پر ازخود نوٹس لیں تو وہ نوٹس ازخود نہیں رہے گا۔
چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت نے جب کچھ کرنا ہوگا تو وہ خود کرے گی، ہم نے کسی کے کہنے پر نہیں چلنا، کیا چاہتے ہیں ایسا فیصلہ ہو جس سے دوسری عدالت کا دائرہ اختیار متاثر ہو؟ سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ آگیا توہائی کورٹ اس کا پابند ہوگا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بغیر ثبوت کے الزامات لگائے جاتے ہیں، ذمہ دار لوگوں کو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے، ابھی سپریم کورٹ کی مداخلت سے ہائی کورٹ میں سماعت متاثر ہوسکتی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 23 جولائی تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا اور تجاویز طلب کرلیں۔