افغان طالبان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے انھیں دورے کی دعوت دی تو وہ قبول کریں گے اور وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کریں گے۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر انھیں پاکستان نے دورے کی باضابطہ دعوت دی تو قبول کریں گے، ہم تو خطے اور پڑوسی ممالک کے دورے کرتے رہتے ہیں، پاکستان بھی جائیں گے جو ہمارا ہمسایہ اور مسلمان ملک ہے۔
پاکستان کے آلہ کار ہونے سے متعلق الزام کے جواب میں سہیل شاہین نے کہا کہ جن لوگوں کے پاس طالبان کے خلاف جھگڑے کے لیے کوئی اور دلیل نہیں وہی ہم پر ایسے الزامات لگاتے ہیں، ہمارے اسلامی اور قومی مفاد ہیں جس میں ہم کسی کو بھی مداخلت نہیں کرنے دیتے، جہاں تک دوسرے ممالک اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ رابطے قائم کرنے کا سلسلہ ہے، اُن کے ساتھ تو ہمارے رابطے ہیں بھی اور ہم چاہتے بھی ہیں۔
افغان حکومت سے مذاکرات کے بارے میں سہیل شاہین نے کہا کہ بیرونی قوتوں کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے بعد طالبان تمام افغان فریقین کے ساتھ ساتھ افغان حکومت سے بھی ملیں گے، ہم نے افغانستان کے مسئلے کو بیرونی اور اندرونی دو مرحلوں میں تقسیم کیا ہے، بیرونی مرحلے کے مذاکرات اب مکمل ہونے والے ہیں جن کی کامیابی کی صورت میں پھر دوسرے مرحلے میں تمام افغان فریقین سے بات چیت کی جائے گی، جس میں افغان حکومت بھی ایک فریق کی حیثیت سے شامل ہوسکتی ہے۔
کابل سے اغوا کیے گئے امریکی اور آسٹریلوی شہریوں کی رہائی کے بارے میں سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ہماری ہروقت یہ کوشش ہوتی ہے کہ قیدیوں کے تبادلے ہوں اور گرفتار ساتھی رہا ہو جائیں، ہم نے پہلےبھی گرفتار ساتھیوں کی رہائی کے لیے قیدیوں کے تبادلے کئے ہیں اور اب بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُس میں اگر کوئی کچھ کردار کرنا چاہتا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے امریکا کے حالیہ دورے میں کہا تھا کہ پاکستان واپس جاکر طالبان سے ملیں گے اور انہیں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کریں گے اور وہ کابل سے اغوا کئے گئے غیرملکیوں کے رہائی کی کوشش بھی کریں گے۔