پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسد عمرنے کہا ہے کہ عمران خان نے ٹھان لی ہے کہ وہ ایک بہترین وزیراعظم بنیں گے اور وہ ان پانچ سالوں میں بن کر بھی دکھائیں گے،میں وزیر خزانہ نہیں’’وزیر خالی خزانہ‘‘ تھا، وزیراعظم سخت فیصلے لے رہے ہیں تاکہ جلد از جلد حالات کو بہتربنایاجا سکے،عمران خان کا حسِ مزاح بہترین ہے،جب سے کابینہ چھوڑی ہے تب سے میں وزیراعظم سے معیشت پر بات نہیں کرتا۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئےسابق وزیر خزانہ اسد عمرکاکہنا تھا کہ جب ہماری حکومت بننے والی تھی تو مختلف لوگ مجھے کہتے کہ آپ تو وزیر خزانہ بن رہے ہیں جس کے جواب میں انہیں یہی کہتا تھا کہ میں ’’وزیرِ خالی خزانہ‘‘ ہوں کیونکہ اس وقت ملک کا خزانہ بالکل خالی ہو چکا تھا،موجودہ حالات میں ملک مشکل وقت سے گزر رہا ہے اور وزیراعظم سخت فیصلے لے رہے ہیں تاکہ جلد از جلد حالات کو بہتر بنایا جا سکے اور ان غیر مقبول فیصلوں کی وجہ سے ان کی سیاسی ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی نے ورلڈ بینک کے لئے کام کیا ہے یا آئی ایم ایف میں کام کیا ہو۔نجکاری کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کچھ اداروں میں ایسا کرنا ضروری ہے اور کچھ میں ضرورت نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت آمدنی کا جو ہدف رکھا گیا ہے وہ بہت بڑا چیلنج ہے، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)شبر زیدی کی جتنی بھی حمایت کی جائے وہ کم ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے چاہنے والوں میں بھی تبدیلی آئی ہے، اگر ہوائی اڈے جاؤں تو وہاں پر کھڑے گارڈز، مارکیٹ میں کھڑے عام لوگ مجھے آ کر کہتے ہیں کہ مشکل وقت ضرور ہے مگر گھبرانا نہیں،لوگوں کی امیدوں کا بہت دبا ؤہوتا ہے، رات کو سونے سے قبل یہ ضرور سوچتا ہوں کہ کیا ہم ان کی امیدوں پر پورا اتر سکیں گے؟۔
پے پال کے حوالے سے سوال پران کا کہنا تھا کہ بہت کوشش کی کہ یہ لوگ پاکستان آئیں مگر وہ بہت نخرے کر رہے ہیں، امید ہے کہ اس کا کوئی متبادل جلد لے کر آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ میں اس وقت اسلام آباد کے ماسٹر پلان کے علاوہ دس کروڑ گیلن پانی کی سکیم، نوجوان مراکز اور کرکٹ اسٹیڈیم پرکام کر رہا ہوں تاکہ پی ایس ایل کے میچز بھی یہاں ہو سکیں۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کا حسِ مزاح بہترین ہے، جب سے کابینہ چھوڑی ہے تب میں وزیراعظم سے معیشت پر بات نہیں کرتا۔
انہوں نے کہا کہ ورلڈکپ کے حوالے سے ہماری بہت بات چیت ہوتی تھی، بھارت کے خلاف میچ میں جو ٹیم کھلائی گئی انہیں بالکل پسند نہیں آئی وہ مجھ پر غصہ کر رہے تھے کہ یہ کیسی ٹیم کھیلا دی ہے۔سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ عمران خان پرامید تو بہت ہوتے ہیں مگر وہ کسی کام کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے بہت جان مارتے ہیں۔
پارٹی میں رہنمائوں کے اختلافات سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ایک جمہوری پارٹی ہے، اصل سوال یہ ہے کہ دونوں رہنما ملک اور پارٹی کے لئے کیا کردار ادا کر رہے ہیں، جہانگیر ترین ہوں یا شاہ محمود دونوں پارٹی اور ملک کی خاطر ایک صفحے پر ہوتے ہیں،مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں انہیں میں بہت پسند کرتا ہوں سیاسی طورپر تو ہم ایک دوسرے کو نہیں بخشتے مگر ذاتی طور پر ہمارا اچھا تعلق ہے۔
ایک سالہ کارکردگی کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا پہلا سال تھوڑا سخت ہوتا ہے، چیزوں کے بارے میں زیادہ سمجھ نہیں ہوتی، اس میں کوئی شک نہیں کہ بہتری کی گنجائش تھی مگر اس کے باوجود یہ سال اچھا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی شروعاتی دنوں میں جو فواد چوہدری نے میڈیا کے حوالے سے اقدام کیا وہ اصولی طور پر باکل ٹھیک تھا مگرسخت تھا جن کے ذریعے پیغام پہنچایا جانا تھا انہیں ہی ناراض کر دیا گیا۔
شادی کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میں اور میری اہلیہ جامعہ میں ساتھ پڑھتے تھے، وہ مجھ سے دو سال جونیئر تھیں، ہماری پسند کی شادی ہوئی۔