سرکاری ملازم کو رجسٹرار سپریم کورٹ تقررکرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔فائل فوٹو
سرکاری ملازم کو رجسٹرار سپریم کورٹ تقررکرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔فائل فوٹو

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست سننے والا لارجربینچ ٹوٹ گیا

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سپریم جوڈیشل کونسل کے خلاف درخواست کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا لارجر بینچ ٹوٹ گیا۔

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے ریفرنس سے متعلق دائر آئینی درخواستوں پر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کی ہدایت ہےکسی ذاتی فائدے کے لیے جوڈیشری پر کوئی حرف نہ آنے دیں، اس وقت پوری قوم کی نظریں اس کیس پر ہیں۔

وکیل منیر اے ملک کی جانب سے چیف جسٹس کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ چیف جسٹس نے عدالتی سال 2018 کے آغاز کی تقریب پر خطاب کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ احتساب کے عمل سے غیر متوازن اور سیاسی انجینئرنگ کا تاثر مل رہا ہے، احتساب کا عمل جوڈیشل انجیئنرنگ کے لیے بھی استعمال ہو رہا ہے، میرے موکل کی ہدایت ہے کہ عدلیہ کا تشخص خراب نہیں ہونا چاہیے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے بینچ پراعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس بینچ میں کچھ ججز کو مقدمہ سننے سے انکار کر دینا چاہیے، کوئی جج اپنے کازکا جج نہیں ہو سکتا۔

منیراے ملک نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبران کے علاوہ باقی ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایا جائے، انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے، قانون کی حکمرانی کا حتمی دفاع عوام کرتے ہیں، جن ججز کے مفادات اس سے جڑے ہیں وہ اس بینچ کا حصہ نہ ہوں۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ کون سا جج متعصب ہوسکتا ہے جس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ کوئی بھی جج متعصب ہے۔

جسٹس عمر نے ریمارکس دیےکہ میں یہ باور کروانا چاہتا ہوں کہ اس عدالت کا کوئی بھی جج متعصب نہیں، کون سے عوامل سے جج کی جانبداری ثابت ہوتی ہے، اس عدالت کا ہر جج اپنی ذمہ داری آئین اور قانون کے مطابق ادا کرتا ہے، اس عدالت کے کسی جج کو کسی مقدمے میں کوئی دلچسپی نہیں، جج کی جانبداری کا کہہ کرآپ غلط جانب جا رہے ہیں، ہم تعصب یا جانبداری پرمزید دلائل سننا چاہتے ہیں۔

منیرملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ عوام کا عدلیہ پراعتماد ہونا ضروری ہے،اعتماد نہ ہو تو انصاف نہیں ہوسکتا، جن ججزنے چیف جسٹس بننا ہے ان کی دلچسپی ہے، اس بینچ کے دو ججز ممکنہ چیف جسٹس بنیں گے،ان کا براہ راست مفاد ہے، چیف جسٹس بننے سے ان کی تنخواہ بڑھے گی۔

جسٹس عمر نے ریمارکس دیے کہ اس فیصلے کے مطابق جج بطور جج کسی کو نہیں جانتا، آپ کیسے تشریح کرسکتے ہیں کہ اس کیس میں متعصبانہ سوچ ہے، کوئی یہ نہیں جانتا کہ کل کوئی زندہ رہے گا، آپ کیسے آئندہ برسوں کی بات کرتے ہیں، آپ کو اداروں کو مضبوط کرنے کیلیے کھڑا ہونا چاہیے، آئندہ چار برس کے مفروضے پر بات نہ کریں، اگر دوران سماعت کوئی لچک دیکھیں تو ہمیں آگاہ کریں، شروعات میں بینچ پر سوال اٹھانا صحیح نہیں، ججز کا ذاتی مفاد نہیں ہے، یہ باتیں صرف افواہوں کا دروازہ کھولیں گی، آپ کی بات مستقبل کی ہے جو بہت دور ہے، سماعت میں شفافیت بھی بینچ نے لانی ہے۔

منیر ملک کا کہنا تھا کہ عدالت کا کام صرف انصاف کرنانہیں بلکہ انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہیے، کسی جج کو براہ راست کوئی فائدہ ہورہا ہوتو ایسا کیس سننا کوڈ آف کنڈکٹ کے منافی ہے۔

اس موقع پر جسٹس فیصل عرب نے منیر اے ملک سے مکالمہ کیا کہ آپ اپنا مؤقف ثابت نہ کرسکے تو سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی جاری رکھےگی۔

جسٹس قاضی کے وکیل نے کہا کہ میرے موکل کو سپریم کورٹ کےکسی جج پر ذاتی اعتراض نہیں،یہ سپریم کورٹ کی ساکھ اور وقار کا معاملہ ہے۔

بعد ازاں عدالت نے منیر اے ملک کے دلائل پر 7 رکنی بینچ تحلیل کرتے ہوئے نئے بینچ کی تشکیل کا معاملہ چیف جسٹس پاکستان کو بھجوادیا.

منیر اے ملک کے اعتراض پر جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ میں پہلے ہی ذہن بناچکا تھا کہ میں اس بینچ کا حصہ نہیں بنوں گا جب کہ جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ حلف کی پاسداری کرتے ہوئے انصاف کے تقاضوں پر پورا اتروں گا، میں بھی روایات کو برقرا رکھتے ہوئے بینچ سے الگ کرتا ہوں۔

اس پرمنیراے ملک نے کہاکہ میں ان دونوں ججز کا احترام کرتا ہوں، مجھے ان پرمکمل اعتماد ہے۔

بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جس طریقے سے ججز کوالگ کرنے کا کہا گیا مجھے اس پر تحفطات ہیں، ہم یہ معاملہ چیف جسٹس کو بھجوارہے ہیں۔

واضع رہے کہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اور ہائی کورٹ کے 2 ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائرکر رکھے ہیں۔