کم تنخواہ کے معاملے پر وہ غصے میں ااگئے اور کہا کہ تمہیں دیکھ لوں گا۔فائل فوٹو
کم تنخواہ کے معاملے پر وہ غصے میں ااگئے اور کہا کہ تمہیں دیکھ لوں گا۔فائل فوٹو

ڈاکٹر سعید اختر نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا پول کھول دیا

پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر سعید اختر نے بیان جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملاقات میں جب میں نے مزید پی کے ایل آئی کے بارے میں بتانا شروع کیا تو وہ اچانک غصے میں آ گئے۔

چیف جسٹس کے بھائی نے کہا کہ بھائی جان ان سے پوچھیں کہ ان کو 20 ارب روپے کس بات کے ملے ہیں ، یہ میرے لیے بہت زیادہ غیر معمولی اور غیر مہذب لب و لہجہ تھا ، میں نے کہا مجھے توکوئی بیس ارب روپے نہیں ملے،ایک ادارے کیلئے چیف منسٹر نے بیس ارب روپے متعین کیے ہیں۔

ڈاکٹر سعید اختر کے مطابق پھر وہ کہنے لگے کہ بھائی جان آپ کو یاد ہے کہ سروسز ہسپتال میں جب پانی کی ٹیبز بھی ٹوٹی ہوئی تھیں تو ہم نے چندہ جمع کر کے ٹھیک کروائیں کیونکہ یہ بھی ٹھیک کروانے کے پیسے نہیں تھے اور ان کو بیس ارب روپے دیئے گئے ۔

ڈاکٹر سعیدنے کہا کہ میں نے جواب دیا کہ میں نے وزیراعلیٰ کے سامنے یہ شرط رکھی تھی چونکہ سرکاری ہسپتالوں کا بجٹ پہلے ہی بہت کم ہے تو پی کے ایل آئی کیلیے سرکاری ہسپتالوں کے بجٹ سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا جائے گا ، یہ ساری بات چیت سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے گھر پر ہو رہی تھی ، میں نے ثاقب نثار سے یہ بات کہی تو انہوں نے بھی اس پر اتفاق کیا ،یہ چیز ریکارڈ پر ہے کہ پی کےا یل آئی کیلئے بجٹ سے ہیلتھ کیئر سے کوئی پیسہ نہیں لیا جائے گا اور ہیلتھ کیئر کے بجٹ کو بھی ڈبل کرنے کی کوشش کروں گا ۔

ڈاکٹر سعید کے مطابق پھر انہوں نے کہا کہ بھائی جان یہ آٹھ سے دس لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں ، میں نے کہا کہ جن ڈاکٹروں کو میں لے کرآیاہوں ان میں سے کوئی پانچ لاکھ اور کوئی دس لاکھ ڈالر کماتا تھا ، یہ دس لاکھ روپے ان کی ایک دن کی تنخواہ ہے ، یہ لوگ دس لاکھ کیلیے نہیں بلکہ ایک جذبے کیلیے پاکستان آئے ہیں تو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار غصے میں کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ میرا بھائی ایک لاکھ 35 ہزار روپے تنخواہ لیتاہے تو آپ نے کیسے انہیں دس لاکھ روپے کی آفر کی ۔

ڈاکٹر سعید نے کہا کہ میں نے جواب دیا کہ ضرور ایک لاکھ 35 ہزار روپے تنخواہ لیتے ہوں گے لیکن وہ شام کو پرائیوٹ پریکٹس کرتے ہیں جس میں وہ اچھے پیسے بنا لیتے ہیں لیکن ہمارے ڈاکٹرز ادارے کے باہر کوئی پریکٹس نہیں کر سکتے ، بس وہاں سے وہ بہت غصے میں آ گئے اور کہا کہ میں آپ کے خلاف سو موٹو نوٹس لوں گا اور آپ لوگوں کو دیکھ لوں گا، فورا چیف سیکریٹری کو بلاﺅ، ہیلتھ سیکریٹری کو بلایا گیا ، یہ وہ وقت تھا جب میں نے فیصلہ کیا کہ ہمیں معذرت کر لینی چاہیے۔