8بین الاقوامی تنظیموں میں سے دو تنظیمیں جو کرپشن پرٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ میں معاونت کرتی ہیں، 2019ء کیلیے اپنی رپورٹ میں پاکستان کو پہلے سے زیادہ کرپٹ قراردیا ہے جس کے بعد خدشہ ہے کہ پاکستان ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پریسپشن انڈیکس ( سی پی آئی) کی آئندہ سالانہ رپورٹ میں اپنی پوزیشن کھو دے گا،یہ رپورٹ فروری 2020ء میں برلن سے جاری ہوگی۔
کرپشن کی جانچ پڑتال پر کام کرنے والی تنظیم کے ذرائع کے مطابق ورلڈ اکنامک فورم کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کی پوزیشن 99 سے نیچے 101 ویں دکھائی گئی ہے ۔
ورلڈ اکنامک فورم کی تشخیصی رپورٹ سے قبل ورلڈ جسٹس پروجیکٹ میں اس کے رول آف لاء انڈیکس 2019ء ان سائٹس میں تشخیص کی ہے کہ پاکستان 2018 کے مقابلے میں 2019 میں ایک پوزیشن سے محروم ہو جائے گا۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل عالمگیر سطح پر سی پی آئی کیلیے اعداد و شمارکے 13 مختلف ذرائع کو استعمال کرتا ہے ، تاہم پاکستان کے معاملے میں سروے کیلیے 8 بین الاقوامی تنظیموں کے اعداد و شمار کو زیر غور لایا جاتا ہے جن میں برٹلسمین اسٹفٹنگ ٹرانسفارمیشن انڈیکس ، اکنامسٹ انٹلی جنس یونٹ کنٹری رسک سروس، گلوبل انسائیٹ کنٹری رسک ریٹنگز، آئی ایم ڈی ورلڈ کمپی ٹیٹونس سنٹر ورلڈ کمپی ٹیٹونس ایئر بک ایگزیکٹو اوپنیئن سروے، ورلڈ بینک کنٹری پالیسی اینڈ انسٹی ٹیوشل اسیسمنٹ، ورلڈ اکناملک فورم ایگزیکٹو اوپینئن سروے، ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رول آف لاء انڈیکس اور ورائٹیز آف ڈیموکریسی شامل ہیں، مذکورہ 8 میں سے دو تنظیموں نے پہلے ہی پاکستان کی درجہ بندی گھٹا دی ہے، جو پاکستان میں کرپشن میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی گزشتہ رپورٹ کی سی پی آئی 2018ء میں معمولی بہتری دکھائی گئی تھی جو 2017 ء کے مقابلے میں ایک پوائنٹ بہتر تھی۔
2018ء کی رپورٹ میں پاکستان کی درجہ بندی 180 ممالک میں 117 ویں تھی۔اس حوالے سے حکومت کا مؤقف ہے کہ ملک میں کرپشن ہے مگر پہلے سے ہے اور اس کے تدارک کیلیے کام کررہے ہیں تاہم 70سال کا گند 13ماہ میں تو صاف نہیں ہوسکتا ، غیر ملکی رپورٹس میں ایسا کوئی وزن نہیں اس سے جو تاثر دیا جارہا ہے وہ غلط ہے ۔