اسلام آبادہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست پروزیراعظم ،وزیراعلیٰ پنجاب اورنیب کے نمائندوں سے تفصیلی جواب طلب کرتے ہوئے 5.30بجے تک ملتوی کردی،عدالت نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہر شخص کہہ رہا ہے کہ عدلیہ ذمے د ار ہے لیکن عدلیہ اپنے کندھوں پرکوئی ذمے داری نہیں لے گی۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آبادہائیکورٹ میں نوازشریف کی العزیزیہ ریفرنس میں طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں2 رکنی بنچ نے سماعت کی ۔
دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آبا دہائیکورٹ نے سیکریٹری داخلہ فیصل چوہدری کو روسٹرم پربلا کر استفسار کیا کہ کیا ضمانت خارج کرنے کا ہائیکورٹ کا فیصلہ آپ تک پہنچا تھا،کیا آپ نے عدالتی فیصلہ پڑھا تھا؟ضمانت دینے کا فیصلہ حکومت کا اختیار ہے،آپ کی لاپرواہی کی وجہ سے بات عدلیہ پرآتی ہے،ہم نے آپ کو بیان حلفی جمع کروانے کا حکم دیا تھا کیا آپ بیان حلفی لائے ہیں؟ جس پر سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ میں اس بارے میں پوچھ کر بتائوَں گا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ میڈیکل بورڈ کہتا ہے کہ مریض کی حالت خراب ہے،وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے بیان حلفی کیوں نہیں جمع کرایا گیا؟کیا ملزم جسمانی ریمانڈ پرآپ نیب والوں کے پاس ہے؟کیا اس معاملے پر نیب چیئرمین نے بیان حلفی جمع کرایا ہے؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نیب پراسیکییوٹرکو مخالطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ عدالت سے باہر چلے جائیں اور نیب آدھے گھنٹے میں بیان حلفی جمع کرائے ۔ اسلام آبا د ہائیکورٹ نے وزیراعظم ، وزیر اعلیٰ پنجاب اور نیب پراسیکیوٹر کے نمائندگان سے تحریری جوابات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت آدھے گھنٹے کیلئے ملتوی کردی۔