فائل فوٹو
فائل فوٹو

کونسل صدارتی ریفرنس اٹھا کر پھینک نہیں سکتی۔سپریم کورٹ

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اوردیگرکی صدارتی ریفرنس کے خلاف آئینی درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے ریفرنس وحید ڈوگر نے نہیں،صدر پاکستان نے دائر کیا، صدر کو سرکاری اداروں تک رسائی ہوتی ہے،آپ کہتے ہیں ریفرنس دائر ہونے کے بعد مواد اکٹھا کرنا کونسل کا کام ہے، کونسل صدارتی ریفرنس کو اٹھا کر پھینک نہیں سکتی،کونسل اضافی مواد مانگ سکتی ہے۔

تفصیلات کے مطابق جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اور دیگر تمام آئینی درخواستوں پر سماعت جاری ہے،جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10رکنی فل کورٹ بینچ نے سماعت کر رہا ہے، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے وکیل منیرملک دلائل دے رہے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے 2014 میں ٹیکس ریٹرن فائل کی؟منیراے ملک نے بتایا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں حکومت اس کا جواب دے سکتی ہے،میں یہاں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی نمائندگی کر رہا ہوں،میرے موکل کو ٹیکس ریٹرن اوراثاثے ڈیکلیئرکرنے سے متعلق نوٹس بھیجے گئے،نوٹس میں 2015 سے 2018 تک کی تفیصلات مانگی گئیں، حکومت نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو جسٹس فائزعیسیٰ کی اہلیہ کی ٹریول ہسٹری دی تھی۔

دستاویزات کے مطابق جسٹس فائزعیسیٰ 2018 کے بعد برطانیہ نہیں گئے،ٹریول ہسٹری 2009 سے 29 دسمبر 2018 تک جمع کرائی گئی تھی،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 2014 میں تمام تفصیلات جمع کرا دی تھیں۔

منیراے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ،جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ کو ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کا نوٹس دیا گیا،جس میں کہا گیا کہ 2015 سے 2018 تک کے گوشوارے جمع نہیں کرائے،جس پتے پرنوٹس بھیجا گیا وہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ 1997 میں فروخت کر چکے تھے،غلط پتے پرنوٹس بھجوانا بد نیتی ہے،جسٹس فائزعیسیٰ کی اہلیہ نے 2014 میں گوشوارے جمع کرائے تھے۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ حکومت کے پاس نیا پتہ ہونا چاہئے تھا،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اول سوال اہلیہ کے نام اثاثے ظاہر کرنا لازمی ہونے یا نہ ہونے کا ہے،منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ میں یہاں قافی فائز عیسیٰ کی نمائندگی کر رہا ہوں اس لیے جواب نہیں دے سکتا۔

جسٹس فائزعیسی کاپنی اولاد اوراہلخانہ کی جاسوسی پر بیان حلفی دینے کو تیارہیں،کچھ علم نہیں کہ ان کی اہلیہ ی جاسوسی کیسے ہوئی،اٹارنی جنرل نے بیان حلفی پراعترا ض اٹھا دیا۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے ریفرنس وحید ڈوگر نے نہیں،صدر پاکستان نے دائر کیا، صدر کو سرکاری اداروں تک رسائی ہوتی ہے،آپ کہتے ہیں ریفرنس دائر ہونے کے بعد مواد اکٹھا کرنا کونسل کا کام ہے، کونسل صدارتی ریفرنس کو اٹھا کر پھینک نہیں سکتی،کونسل اضافی مواد مانگ سکتی ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ بظاہر جاسوسی ہونا آپ کا تجزیہ ہے،کیا صدر وزیراعظم کو استعمال کر سکتا ہے،وکیل نے بتایا کہ صدر مملکت کے آفس کا مرتبہ زیادہ اہم ہے۔

جسٹس منصور نے ریمارکس دیے ہیں صدارتی ریفرنس سے پہلے کی گئی تحقیقات بلکل غلط ہیں،وکیل نے بتایا کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف تحقیقات سپریم جوڈیشل کونسل نے کرنی تھی۔