اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر8 ہفتے کیلیے ضمانت منظورکرتے ہوئے سزا معطل کر دی اور 20 ،20 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کا حکم جاری کر دیا۔
عدالت نے فیصلے میں کہاہے کہ اگر آٹھ ہفتوں کے دوران طبیعت مزید خراب ہوتی ہے تو صوبائی حکومت مجاز ہو گی، ان سے رابطہ کیا جائے وہ ضمانت میں توسیع کر سکتی ہے۔
عدالت کا فیصلے میں کہناتھا کہ ضمانت کا دورانیہ بڑھانے کیلیے بھی صوبائی حکومت سے رابطہ کیا جا سکتاہے۔عدالت کی جانب سے نوازشریف کی آٹھ ہفتوں کی ضمانت منظور کرنے کا تحریری فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
اسلام آبادہائیکورٹ میں نوازشریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کی درخواست پر سماعت ہوئی ،جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اخترکیانی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے سماعت کی۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عدالت کے سامنے اس وقت چار آپشنز ہیں ،پہلا آپشن یہ معاملہ ایگزیکٹو کوبھجوائیں،دوسرا آپشن نیب کی تجویز پر ٹائم فریم کے تحت سزا معطل کریں ،تیسراآپشن آپ کی مان لیں یا درخواست خارج کردیں۔
نیب نے دلائل کے آغازمیں نوازشریف کو بیرون ملک علاج کی اجازت دینے اور مستقل ضمانت کی مخالفت کی تاہم بعد میں نوازشریف کو مشروط اور محدود ضمانت دینے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ انسانی گراونڈز پرنوازشریف کی میڈیکل حالت تشویشناک ہے،عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ٹائم فریم کے تحت سزامعطل کر دے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نواز شریف کو مخصوص مدت کے لیے ضمانت دی جاسکتی ہے، علاج کے لیے مخصوص مدت کے لیے ضمانت کا طریقہ کار سپریم کورٹ نے بنایا ہے جب کہ نواز شریف کیس میں میرٹ پر بات نہیں کرتے، دوسری صورت یہ ہے کہ درخواست ضمانت کو التواء میں رکھا جائے اور اس دوران نواز شریف کی فریش میڈیکل رپورٹ منگوالی جائے، ہم صرف انسانی بنیادوں پر یہ بیان دے رہے ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس میں کہا کہ ہمارا المیہ ہے کہ ایگزیکٹو اپنے اختیارات استعمال نہیں کرتے بلکہ دوسروں کے کندھے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نواز شریف کی ضمانت کے 3 آپشنز ہمارے سامنے ہیں، پہلا آپشن یہ ہے کہ نوازشریف کو ضمانت دے دی جائے، دوسرا آپشن ہے کہ نیب کی تجویز کے مطابق مشروط ضمانت دے دی جائے جب کہ تیسرا آپشن یہ ہے کہ حکومت کواختیار دے دیا جائے۔
جسٹس محسن کیانی نے ریمارکس میں کہا کہ حکومت ضمانت کا فیصلہ کرے تو شاید وہ ڈیل نہ کہلائے، ڈیل کی باتوں نے رائے عامہ کو تباہ کرکے رکھ دیا گیا۔