آتش بازی کیوں روکی گئی، پولیس یہاں سے چلی جائے۔فائل فوٹو
آتش بازی کیوں روکی گئی، پولیس یہاں سے چلی جائے۔فائل فوٹو

حکومت کا مولانا کیخلاف عدالت جانے کا اعلان

وفاقی وزیرداخلہ اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم کے گھر جاکرگرفتارکرنے کی بات کی ہےجو بغاوت کے زمرے میں آتی ہے ہم ان کیخلاف عدالت جائیں گے۔

حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی پریس کانفرنس کے دوران پرویزخٹک نے کہا کہ اب بھی ہمارے دروازے کھلے ہیں اور ہم بات کرنے کو تیار ہیں لیکن اگر ہمیں مجبور کیا گیا تو کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کیونکہ یقینا ہم ایکشن لیں گے۔

پرویز خٹک نے کہاکہ مذاکرات کیلیے تیارہیں، وزیراعظم کے استعفے پرکوئی بات نہیں ہوگی، کل جلسے میں جو تقریریں کی گئیں اس پر ہمیں افسوس ہوا اوراگریہ معاہدے پر قائم نہیں رہتے تو پھریقینا ایکشن لیا جائے گا۔

ان کا کہناتھا کہ یہ آگے بڑھیں گے تو اپنے ہی معاہدے کی خلاف ورزی کریں گے تو پھر ہماری طرف سے گلہ کسی کو نہیں کرنا چاہیے کیونکہ عمران خان نے کھلے دل سے اجازت دیتے ہوئے انہیں آنے دیا، لیکن یہ پھر بھی دھمکی دیتے ہیں تو یہ ایمان اور زبان کے کچے ہیں، ہم اپنی زبان پر قائم ہیں اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا کہ کوئی یہ کہے کہ اپنے معاہدے سے ہٹ گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا حکومت لاچار نہیں ہوتی کہ 30 سے 40 ہزار بندے آ کر قبضہ کر لیں اور وزیراعظم کے گھر جا کر استعفیٰ لیں، ہم اب بھی بات کرنے کو تیار ہیں لیکن اگر یہ افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں تو ان کا کوئی مقصد بھی ہو گا۔

انہوں نے کہاکہ آزادی مارچ کے باعث کشمیر کا مسئلہ پیچھے چلا گیا جس کے باعث ہندوستان میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں اوراگر ملک کو کوئی نقصان پہنچا تواس کی ذمے داری ان لوگوں پرعائد ہو گی کیونکہ اگرانہوں نے معاہدہ نہ کیا ہوتا تو یہ آزاد ہوتے مگرایسا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز انہوں نے جو تقریریں کیں اس پر بہت افسوس ہوا، انہوں نے اداروں پر تنقید کی جس پر آئی ایس پی آر کا بیان بھی آ گیا جس میں انہوں نے کہا کہ ہم تمام جمہوری حکومتوں کیساتھ کھڑے ہوتے ہیں، اگر اداروں پر تنقید کریں گے جنہوں نے شہادتیں دیں، تو پھر پاکستان میں کون کام کرے گا، کسی کو ملک دشمنی نہیں کرنی چاہیے، یہ ادارے ہم سب کے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز شہباز شریف کی بات بھی سنی کہ میری 10 فیصد حمایت بھی کی جاتی تو میں کچھ اور کر دیتا، لیکن میں کہتا ہوں کہ انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے تھا، کہ نواز شریف اقتدار میں کیسے آئے، یہ پہلی دفعہ ہے کہ ایک فوج اور ادارہ نیوٹرل ہے اور انہیں شکست ہوئی جس پر انہیں تکلیف ہے، یہ سب کسی کی پشت پناہی پر چلتے رہے لیکن اب ادارے سمجھ گئے اور اب نیوٹرل کردار ادا کر رہے ہیں جس پر ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

پرویز خٹک نے کہا کہ یہ غلط فہمی میں نہ رہیں کہ ہم کسی کی سوچ پر چل رہے ہیں، ہم نے انہیں یہاں آنے کی اجازت دی ہے، اب یہ بات چیت کریں کیونکہ اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو اس ملک میں جمہوریت نہیں چل سکتی، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جمہوریت نہیں چاہتے۔

پرویز خٹک نے کہاکہ مولانا فضل الرحمن نے کل تقریریں کی حالانکہ وہ کہتے تھے کہ مذہبی کارڈ استعمال نہیں کیا جائے گا اور پیپلز پارٹی بھی کہتی تھی کہ وہ اس کی حمایت نہیں کریں گے لیکن کل وہ بھی اسٹیج پر کھڑے تھے اور ہنس رہے تھے، دہرا معیار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس سے ملک کو نقصان پہنچا ہے، انہوں نے جو بات کی اس پر قائم رہیں۔

انہوں نے کہاکہ  ہم نے الیکشن میں دھاندلی کی بات کی تھی جس کے بعد اسمبلی میں معاملہ اٹھایا اورعدالتوں میں بھی گئے لیکن پھر تمام حربے استعمال کرنے کے بعد دھرنے میں آئے لیکن یہ تو نہیں گئے ہی نہیں، حالانکہ دھاندلی کے مطالبے سے متعلق ایک کمیٹی بنی جس کی سربراہی مجھے دی گئی لیکن اس کمیٹی کی بھی تین سے چار میٹنگز ہوئی اور اس کے بعد خاموشی چھا گئی، انہوں نے کوئی ثبوت بھی نہیں دئیے اور نہ ہی میٹنگ بلانے کا مطالبہ کیا، اب انہوں نے آگے بڑھنے کا اعلان کر دیا ہے جو ملک کیلیے نقصان دہ ہو گا۔

مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہم کسی طرح کا ٹکراﺅ نہیں چاہتے لیکن اگر مجبور کیا گیا تو یقینا پھر ان کے ارادے بھی یہی ہیں اور پھر جو کچھ بھی ہو گا وہ سب کے سامنے ہو گا لیکن کوئی بھی پاکستانی نتائج کا ذمہ دار حکومت کو نہیں ٹھہرائے گا کیونکہ ہم بار بار بات چیت کی پیشکش کر رہے ہیں، یہ ڈرتے ہیں کہ اگر حکومت کامیاب ہو گئی اور سب کچھ ٹھیک ہو گیا تو انہیں اقتدار نہیں ملے گا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کیلیے 2 روز کی مہلت دی تھی اور خطاب میں کہا کہ تھا کہ عوام کا یہ سمندر طاقت رکھتا ہے کہ وزیراعظم کے گھر جاکر وزیراعظم کوگرفتار کرلے۔