سینیٹ قائمہ کمیٹی پارلیمانی امورنے الیکشن ایکٹ ترمیمی بلز پر ووٹنگ کرائی۔فائل فوٹو
سینیٹ قائمہ کمیٹی پارلیمانی امورنے الیکشن ایکٹ ترمیمی بلز پر ووٹنگ کرائی۔فائل فوٹو

سینیٹ میں صدارتی آرڈیننس کیخلاف اپوزیشن کا احتجاج

سینیٹ اجلاس میں صدارتی آرڈیننس زیر بحث رہا، حزب اختلاف نے صدارتی آرڈیننس کے خلاف احتجاج کیا۔

سینیٹ کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت شروع ہوا۔ صدارتی آرڈیننس سینیٹ میں پیش نہ کرنے کے معاملہ پرحکومت اوراپوزیشن میں اختلاف پیدا ہو گیا۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ حکومتی وزرا کہہ رہے ہیں، صدارتی آرڈیننس غیر قانونی نہیں، سینیٹ میں آرڈینیس کی اجازت ہے لیکن ایسا بھی مخصوص حالات کے لیے ہے۔ اگر کسی وجوہات پر دونوں ہاوسز کے اجلاس نہ ہوں تو آرڈیننس آ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آرڈیننس کا ایوان میں آنا ضروری ہے اورایوان کی مرضی وہ اس کی اجازت دے یا رد کر دے۔ حکومتی قانونی ٹیم میں زیادہ تر ضیا الحق کے ساتھ رہنے والے ہیں اور یہ صدارتی حکم کے ماننے کے عادی ہو چکے ہیں۔

وزیر پارلیمانی اموراعظم خان سواتی نے کہا کہ رضا ربانی پتہ نہیں کیوں ہمیں ضیا الحق کا ساتھی کہہ رہے ہیں، میں نے کراچی میں ضیا الحق دور میں دو بار جیل کاٹی۔

ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے وزیر پارلیمانی امور کو اس موضوع پر مزید بات کرنے سے روک دیا، آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت آرڈینیس لاِئے جا سکتے ہیں تاہم آج کے اجلاس میں یہ ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔

سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ حکومت نے ایوان صدر کو آرڈیننس فیکٹری بنا دیا ہے، حکومت کو معلوم ہے حزب اختلاف کی اکثریت ہے جو پِی ایم ڈی سی آرڈیننس کو مسترد کر دیں گے۔

وزیر پارلیمانی امور اعظم خان سواتی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں پہلے سال 14 آرڈیننس پیش کیے اور دوسرے سال 58 آرڈیننس پیش کیے جبکہ مسلم لیگ ن نے بھی اپنے ادوار میں 34 سے زائد آرڈیننس پیش کیے تھے۔ اپنے دور میں آرڈیننس حلال لیکن ہمارے لیے نا جائز یہ کیوں ؟

قائد ایوان شبلی فراز اور وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم خان سواتی کے بیانات میں بھی تضاد ہو گیا۔ اعظم سواتی نے کہا کہ آرڈیننس رواں سیشن میں پیش کر دیں گے جبکہ شبلی فراز کا کہنا تھا کہ آرڈینینسز مناسب وقت پر ایوان میں پیش کریں گے۔

حزب اختلاف نے آرڈیننس جاری سیشن میں ہی پیش کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ صدارتی آرڈیننس کے خلاف سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن نے احتجاج بھی کیا۔ سینیٹر رحمان ملک نے صدارتی آرڈیننس کے خلاف نعرے لگائے۔

سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ صدر ہاؤس ایک آرڈیننس فیکٹری بن چکی ہے اورصدارتی آرڈیننس ہاؤس ہمیں منظور نہیں۔ حکومت پارلیمنٹ ہاؤس کو عزت دے، بائی پاس نہ کرے۔

حزب اختلاف نے مطالبہ کیا کہ حکومت کل تمام آرڈیننس سینیٹ میں پیش کرے اورآرڈیننس پیش نہ کرنے کی صورت میں حزب اختلاف کل پھر سینیٹ میں احتجاج کرے گی۔