جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کواتوار تک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب میں کہنا تھا کہ کارکنوں نے استقامت سے رات اور دن بھر ٹھنڈے موسم کو برداشت کیا، یہ اللہ کی طرف سے امتحان، دنیا اور حکمرانوں کیلیے پیغام تھا کہ یہ اجتماع تماش بینوں یاعیاشی کیلیے نہیں، یہ اجتماع مؤقف کے ساتھ کھڑے افراد کا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ملک اس وقت مالیاتی بحران کا شکار ہے، اگر اگلا بجٹ بھی نااہل حکمرانوں کے سپرد کر دیا گیا تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ایک سال میں 3 بجٹ پیش کرکے محصولات کا ہدف حاصل نہیں کر سکے۔ اگر اگلا بجٹ بھی ان نااہلوں کے سپرد کر دیا گیا تو پاکستان معاشی طور پر بیٹھ جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو ہم دیوالیہ پن کا شکار ہو جائیں گے۔ اس لیے ہم یہاں اپنے ملک کو بچانے آئے ہیں۔
مولانا نے کہاکہ اگراگلا بجٹ یہ پیش کریں گے تو ہماری معیشت کا جہاز سمندر میں غرق ہو جائے گا۔ پاکستان ان حکمرانوں کا بوجھ برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہے۔ ملک کا بہت نقصان ہوگیا، مزید نقصانات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ بارہ ربیع الاول کوآزادی مارچ کوسیرت طیبہ کانفرنس میں تبدیل کر دیں گے۔
جے یو آئی سربراہ کا کہنا تھا کہ آزادی مارچ قانونی اور آئینی لحاظ سے جائز مارچ ہے۔ وکلا برادری کی شرکت سے ہمیں تقویت ملی ہے۔ اس موقع پر انہوں جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف دائر ریفرنس واپس لینے کا بھی مطالبہ کیا۔
انہوں نے حکومتی دعوؤں پرکڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کروڑوں نوکریاں دور کی بات، حکومت نے لاکھوں لوگوں کو بے روزگارکردیا ہے۔ پچاس لاکھ گھرگرائے گئے اورایک نیا گھر نہیں بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں پاکستانی سفارت خانے کے عملے کے ساتھ ناروا سلوک ہوا لیکن ہمارا دفتر خارجہ اس حوالے سے خاموش ہے۔ سفارت خانوں کو اپنی حکومت کی جانب سے تحفظ بھی حاصل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں عدل وانصاف نہیں، حکمرانوں کے احتساب کیلیے نیب بے بس ہے۔