لاہورہائیکورٹ نے ینگ ڈاکٹرز کو فوری طور پر ہڑتال ختم کرنےکا حکم دIدیا۔
ہڑتال سے متعلق کیس کی سماعت کےدوران ینگ ڈاکٹرز نے کمرہ عدالت میں شورشرابا بھی کیا جس پر پولیس نے انہیں کمرہ عدالت سے باہرنکال دیا۔
کیس کی سماعت کےدوران سیکریٹری ہیلتھ پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ ایم ٹی آئی قانون بنانے میں سب کو شامل کیا گیا لیکن ایک مخصوص طبقہ ہے جو ہڑتال کررہا ہے۔
اس موقع پر جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیے کہ عدالت حکومت کے ساتھ کھڑی ہے،اس وقت ڈینگی،اسموگ اوردیگرمسائل چل رہے ہیں لیکن ڈاکٹر زہڑتال پر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہڑتال کس طرح کی جاسکتی ہے،آرڈیننس 2 ستمبر کو آیا اس لیے ہڑتال پری میچور ہے۔
ڈاکٹرز کے وکیل نے کہا کہ او پی ڈی میں ہڑتال نہیں، ہڑتال کرنے والے ینگ ڈاکٹرز نہیں بلکہ پوسٹ گریجویٹ ٹرینی ہیں جو ہڑتال کرسکتے ہیں لیکن پروفیشنل ڈاکٹر ہڑتال نہیں کرسکتے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہڑتال کرنے والے ڈاکٹرزکے خلاف فوجداری مقدمہ درج ہوگا، ڈیوٹی اوقات میں ہڑتال کرنا جرم ہے، پی ایم سی اور پنجاب حکومت ہڑتالی ڈاکٹروں کے خلاف ایکشن لیں، یہ ہیلتھ سیکریٹری کا قصور ہے کہ معاملہ ابھی تک لٹکا ہے۔
عدالت نے سیکریٹری ہیلتھ سے استفسار کیا کہا جب آپ ایم ٹی آئی ایکٹ قانون لیکر آئے تو سب کو اعتماد میں لیا گیا؟۔ اس پرعدالت میں موجود وکلا نے نہیں کی آواز لگائی۔ عدالت نے ڈاکٹرز سے کہا کہ آپ اپنے بڑوں سے پوچھیں کہ قانون سے متعلق کیا کرنا ہے۔ ڈاکٹرز کے وکیل نے کہا کہ ہمیں کچھ وقت دیا جائے ہم ابھی طے کرلیتے ہیں۔
سیکریٹری ہیلتھ نے عدالت کو بتایا کہ وہ کمیٹی تشکیل دے چکے ہیں جس پرعدالت نے اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنے کی ہدایت کی اور حکم دیا کہ کمیٹی 2 روزہ ورکشاپ کرکے تمام اسٹیک ہولڈرز کو سن کر ڈرافٹ تیار کرے۔
عدالت نے کمیٹی کو فائنل ڈرافٹ کا مسودہ اور رپورٹ 23 نومبر کو جمع کرانے کی ہدایت کی ساتھ ینگ ڈاکٹرز کو حکم دیا کہ وہ اس دوران کسی بھی قسم کی ہڑتال پر نہیں جائیں گے اور ایسا کرنے کی صورت میں توہین عدالت کی کارروائی میں جیل جائیں گے۔
بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 2 دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔
یاد رہے کہ پنجاب میں ایم ٹی آئی ایکٹ کے خلاف گرینڈ ہیلتھ الائنس کی جاری ہڑتال کے باعث بیشتر سرکاری اسپتال کی او پی ڈیز، آپریشن تھیٹرز اور لیبارٹریاں مسلسل 29 ویں روز بھی بند ہیں جب کہ گزشتہ10 روز سے ان ڈور بھی ڈاکٹرز، پیرا میڈکس اور نرسز کی ہڑتال جاری ہے۔