پاکستان میں سیاسی مقاصد کے لیے جلسے، جلسوس، احتجاج، ہڑتال اور توڑ پھوڑ کی روایت بہت پرانی ہے۔
کراچی میں نوے کے دہائی میں پر تشدد ہڑتالیں ہوئیں۔ سندھ کے سابق وزیراعلی نے کچھ برسوں پہلے سندھ اسمبلی میں انکشاف کیا کہ ایک دن کی ہڑتال سے صوبے کو پندرہ ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
معاشی ماہرین کے خیال میں پی ٹی آئی کے 126 دن کے دھرنے سے ملک کو پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔
سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نقصان کا تخمینہ آٹھ سو ارب روپے ہے جب کہ کچھ ماہرین کے خیال میں یہ نقصان ایک ہزار ارب روپے تک تھا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ دھرنا ملکی معیشت کو کتنے میں پڑتا ہے؟
کراچی میں نوے کے دہائی میں پر تشدد ہڑتالیں ہوئیں، جن کا سلسلہ کچھ برسوں کے توقف کے ساتھ دو ہزار پندرہ تک چلا۔
حالیہ برسوں میں تاجراورکاروباری افراد اس طرح کے احتجاج سے اس قدر پریشان نظرآئے کہ انہوں نے لاہور کے مال روڈ پر کسی بھی قسم کے دھرنے یا احتجاج پر پابندی لگوا دی تاہم اسلام آباد میں ایسا نہیں ہوسکا اور پی ٹی آئی کے126 دن کے دھرنے کے بعد اب مولانا فضل الرحمن پورے طمطراق کے ساتھ اسلام آباد کے جی سیکٹرکے پاس جلوہ گرہیں۔
ان کے مداح دھرنے کے دوران مختلف مشاغل میں وقت گزار رہے ہیں، جھولے جھول رہے ہیں یا بچوں کے گیم کھیل رہے ہیں لیکن تاجر و کاروباری افراد اضطرابی کیفیت میں دھرنے کے ختم ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔
اسلام آباد سے میلوں دور پاکستان کے صنعتی شہر فیصل آباد اور دیگر شہروں میں بھی دھرنے کے حوالے سے بے چینی پائی جاتی ہے۔
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ صرف سیاسی احتجاج، ہڑتالوں اوردھرنے کو بھی حکومت اور سیاست دان روک لیں تو ملک کی کئی معاشی مشکلات حل ہو سکتی ہیں۔
کئی سیاسی ناقدین کا دعویٰ ہے کہ پنجاب کے سابق وزیراعلٰی ممتاز دولتانہ کے دور میں سب سے پہلے اس کی روایت بڑی جب خواجہ نظام الدین کی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے ایک مذہبی اقلیت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کرایا گیا جو پر تشدد صورت بھی اختیارکرگئے تھے۔
ایوب خان اور ذوالفقارعلی بھٹو کے ادوار میں بھی ایسے مظاہرے اوراحتجاج ہوئے، جن سے کاروباری سرگرمیاں بہت متاثر ہوئیں۔ بھٹو مخالف نو ستارے یا قومی اتحاد نے بھی مظاہروں، ہڑتالوں اور پر تشدد احتجاج کو فروغ دیا۔