سرکاری ملازم کو رجسٹرار سپریم کورٹ تقررکرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔فائل فوٹو
سرکاری ملازم کو رجسٹرار سپریم کورٹ تقررکرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔فائل فوٹو

صدارتی ریفرنس۔جج نے صرف اپنے ہی اثاثے ظاہر کرتے ہوتے ہیں۔وکیل

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیخلاف ریفرنس اور سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران وکیل صفائی بابرستار نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کوئی شہری اپنی بیوی یا دیگر اہل و عیال کے اثاثے ظاہر کرنے کا پابند نہیں،جج نے صرف اپنے ہی اثاثے ظاہرکرتے ہوتے ہیں ،صدر مملکت اور وزیراعظم ماورائے قانون کوئی کام نہیں کر سکتے۔

تفصیلات کے مطابق جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیخلاف ریفرنس اور سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی ،جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں لارجر بنچ نے سماعت کی،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قانونی ٹیم کے ممبرایڈووکیٹ بابرستارپیش ہوئے۔

جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ کیا آپ بھی وہی دلائل دیں گے جو منیر اے ملک نے دیے؟،وکیل بابر ستار نے کہا کہ نہیں !میرے دلائل منیر اے ملک سے الگ ہیں ،وکیل صفائی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کوئی شہری اپنی بیوی یا دیگراہل وعیال کے اثاثے ظاہرکرنے کا پابند نہیں،جسٹس عمر عطابندیال نے استفسار کیا کہ کیا جج نے اپنے خاندان کے اثاثے ظاہر نہیں کرنا ہوتے؟۔

وکیل بابر ستار نے کہا کہ جج نے صرف اپنے ہی اثاثے ظاہر کرتے ہوتے ہیں،صدر مملکت اور وزیراعظم ماورائے قانون کوئی کام نہیں کر سکتے۔

جسٹس مقبول باقرنے کہا کہ اس کا مطلب ہے صدر اور وزیراعظم طے شدہ طریقہ کار کو نظرانداز نہیں کرسکتے،جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ حقائق کے درست جائزے سے جج کا بنیادی حق ختم نہیں ہو سکتا۔

جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ صرف ٹیکس کمشنر پر معاملہ چھوڑ دینا آرٹیکل 209 کی تضحیک ہو گی،ممکن ہے کونسل ٹیکس کمشنر کو مناسب فورم قرار دیتے ہوئے فیصلہ کرنے دے،وکیل بابر ستار نے کہا کہ ٹیکس قوانین کے تحت آج تک کسی سول سرونٹ کیخلاف کاررروائی نہیں ہوئی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عملی طور پرکیس میں 3 ٹیکس گوشواروں پربات ہوگی، آرٹیکل 10 اے کا اطلاق صدارتی ریفرنس پر نہیں ہوتا،آ رٹیکل 10 اے میں سول اور فوجداری ٹرائل کا ذکر ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی نہ سول ہے نہ فوجداری۔

بابرستارنے کہا کہ جج کوآرٹیکل 10 اے کے مطابق شفاف ٹرائل کا حق حاصل ہے، قانون کے مطابق عمل کو بائی پاس نہیں کیا جاسکتا، جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل بابرستارنے کہا کہ آئین اورانکم ٹیکس قوانین انفرادی ذمے داری کی بات کرتے ہیں، اہلیہ کے گوشوارے جمع کرانے کا انکم ٹیکس قانون میں ذکر نہیں،جج بننے سے بنیادی حقوق ختم نہیں ہوتے۔

وکیل صفائی نے کہاکہ آرٹیکل 209 ججز کو دیگر افراد کی نسبت زیادہ تحفظ فراہم کرتا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پراپرٹی 2004 کی ہے تو ٹیکس قوانین کا جائزہ بھی لینا ہوگا،بابر ستار نے کہا کہ 5 اگست 2009 کو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ بنے، کیا سپریم کورٹ میں آنا نئی تعیناتی ہے؟۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ آنے پرہائیکورٹ کا کنڈکٹ ختم ہوجاتا ہے، بابرستار نے کہا کہ جی بالکل یہ میری لیگل معروضات کا حصہ ہے کہ ہائیکورٹ کا کنڈکٹ سپریم کورٹ آنے پر ختم ہوجاتا ہے، یہ عدالت ایگزیکٹو کی جانب سے دائرکردہ ریفرنس کاجوڈیشل جائزہ لینے کیلئے بیٹھی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل صدرمملکت کے کنڈکٹ کا جائزہ نہیں لے سکتی،صدرمملکت کے سامنے منی لانڈرنگ کا معاملہ نہیں آیا۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ریفرنس اس قابل نہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل اس کو دیکھے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ صرف منیر اے ملک کی انکم ٹیکس پرمعاونت کرنے آئے تھے، مہربانی کرکے اسی تک رہیں۔

وکیل بابر ستار نے کہا کہ کیا بلڈنگ کوڈ اور ٹریفک چالان بھی جج کے کنڈکٹ میں آئے گا؟ یقیناً جج کا ٹریفک پولیس کو کہنا کہ وہ جج ہے چالان نہیں ہوسکتا غلط ہوگا، بابرستار نے کہا کہ اس کیس میں قانونی مراحل کو اپنایا نہیں گیا، ٹیکس اتھارٹی نے اپنے اختیارات کا درست استعمال نہیں کیا، کیس میں صرف ٹارگٹ کو مدنظر رکھ کر اقدامات کیے گئے۔

سٹس منیب اخترنے کہا کہ ریفرنس صرف ایک کےخلاف نہیں دوسرے جج کے خلاف بھی ہے،وکیل بابرستار نے کہا کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیس کی کہانی بھی پاناما طرز کی ہے، پاناما کیس میں بھی بیوی بچوں کے اثاثوں پر بات ہوئی۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آپ سے سوال بار ثبوت سے متعلق بھی ہوگا،بابرستار نے کہا کہ افتخارچودھری کیس کا فیصلہ آیا تو آرٹیکل 10 اے آئین کا حصہ نہیں تھا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ حقائق کے درست جائزے سےجج کا بنیادی حق ختم نہیں ہوسکتا۔

بابر ستار نے کہا کہ اس کیس میں نہ تو حقائق کو مدنظر رکھا گیا اور نہ قوانین کو، جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ زیرکفالت ہیں یا نہیں، کوئی ہوم ورک نہیں کیا گیا۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ صرف ٹیکس کمشنرپرمعاملہ چھوڑ دینا آرٹیکل 209 کی تضحیک ہوگی،آپ نے دستاویزسے بتانا ہے کہ جسٹس فائزکی اہلیہ زیرکفالت ہیں یا نہیں، جس طرز کا خرچ ہے وہ آ مدن کے مطابق نہیں، کیس میں جج کے مس کنڈکٹ کا الزام ہے۔

بابر ستار نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فائلر ہیں، متذکرہ جائیداد 2013 کی ہے تو ٹیکس گوشوارہ بھی اسی سال کا ہوگا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیس میں ایک جائیداد 2004 اور 2 جائیدادیں 2013 کی ہیں، بابر ستار نے کہا کہ ریفرنس کے بعد جواب الجواب میں بے نامی کا الزام لگایا گیا، ہمارا موقف ہے کہ نہ اثاثے چھپائے گئے اور نا غلط بتائے گئے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کا موقف کیا ہے کہ اثاثے چھپائے گئے یا غلط ظاہر کیے گئے؟ بابر ستار نے کہا کہ ریفرنس میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ پر اثاثہ ظاہر نہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل نے جائزہ لینا ہے کہ جج مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا کہ نہیں۔

جسٹس عمر طا بندیال نے کہا کہ ممکن ہے کونسل ٹیکس کمشنرکومناسب فورم قرار دیتے ہوئے فیصلہ کرنے دے، بابر ستار نے کہا کہ ٹیکس قوانین کے تحت آج تک کسی سول سرونٹ کیخلاف کارروائی نہیں ہوئی، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان قانون دیگرانتظامی ٹریبونلزسے زیادہ جانتے ہیں،یہ نہ بھولیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل سینئرترین ججزپرمشتمل ہوتی ہے۔

بابر ستار نے کہا کہ صدرکے سامنے جج کے بچوں کی ذرائع آمدن سے متعلق کوئی معلومات نہیں تھیں، جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے بچے جائیداد خریدتے وقت بالغ تھے، بظاہر تینوں جائیدادیں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ کی ہیں۔

بابرستار نے کہا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کا کام پلاننگ اور ریسرچ ہے، اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو قانونی تحفظ حاصل نہیں،بابرستارنے کہا کہ نیویارک میں میری تنخواہ اچھی تھی تو فلیٹ خرید لیا، اگرمیرے والد جج ہوتے تو شاید انہیں بھی شوکاز نوٹس مل جاتا۔