دھرنے کے شرکا سے خطاب اور نجی ٹی وی کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ وزیراعظم کے استعفے کے لیے حکمت عملی تبدیل ہوسکتی ہے، استعفے سے کم کی نہیں استعفے کے برابر کی کوئی صورت ہوسکے تو اس کی تجویز لائی جاسکتی ہے۔
جے یو آئی سربراہ کا کہنا تھا کہ جیسا عمران خان چاہیں گے ویسا ہی ہوگا، اْن کے خلاف کوئی آواز نہیں اْٹھ سکتی، ہم نے اْس کی مت ماردی ہے۔ اس وقت تو ہم نے صرف سڑکوں پر قدم رکھا ہے، ابھی نہ عدالت گئے اور نہ ہی کسی ادارے میں قدم رکھا ہے۔ سڑکوں پر ہیں اور ابھی سڑکوں پر ہی قدم آگے بڑھتا رہے گا۔
انہوں نے کہا ہے کہ ان کے دباؤسے حلیف جماعتوں کو فائدہ ملتا ہے تو خوشی ہوگی، انہیں محفوظ راستے کی ضرورت نہیں، ضرورت اْن کو ہے۔دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ کسی کو پاکستان کے نظریے، آئین اور جمہوریت سے کھیلنے نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہاکہ ہم موجودہ حکومت کو تسلیم نہیں کرتے یہ کرسی پر بیٹھے رہیں،عوام انہیں حکمران نہیں مانتے،ایک منظور نظر، نااہل شخصیت کی ملوں میں 40 فیصد چینی ذخیرہ کی گئی، کیا اس کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا،ہمارے مارچ کے پیچھے دنیاوی طاقت ہمارے کارکن ہیں، دھرنے سے ہماری جماعت کے نظریاتی اہداف کو تحفظ مل گیا ہے،میں اور میرے کارکن ایک دوسرے سے راضی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ تحریک کی کوئی حد نہیں ہوتی، منزل مقاصد کا حصول ہوتا ہے اور کارکنوں نے کہا کہ وہ بیٹھے ہیں اور بیٹھے رہیں گے،این آر او کو بدنام کر دیا گیا ہے، اس کا مقصد ملک کو جمہوریت کی طرف لے جانا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہم سے بیک ڈور سے بھی لوگ مل رہے ہیں، کوئی غیر ملکی سفارتخانہ بیچ میں نہیں ہے،فیس سیونگ ہمیں نہیں حکمرانوں کو چاہیے،عمران خان کا استعفیٰ لینے کے لیے حکمت عملی تبدیل ہو سکتی ہے، ہمارے دباؤ سے حلیف جماعتوں کو فائدہ ملتا ہے تو خوشی ہو گی۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ غرور کا پہاڑ ریت کا صحرا بن گیا ہے، ہم نے ان حکمرانوں کو غرور خاک میں ملا دیا ہے، ہم ان حکمرانوں کو تسلیم نہیں کرتے، یہ کرسی پر بیٹھے رہیں لیکن عوام انہیں حکمران نہیں مانتی۔
سربراہ جے یو آئی ف نے کہا کہ فاٹا کے حوالے سے عوام کو سبز باغ دکھائے گئے، کہا گیا کہ ہم فاٹا کو ہر سال 100 ارب روپیہ دیں گے اور 10 سال تک مسلسل دیتے رہیں گے، لیکن آج تک ایک پیسہ نہیں دیا۔
حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ نااہلی کا یہ عالم ہے کہ علامہ اقبال کے حوالے سے 9 نومبرکو محسوس ہی نہیں ہونے دیا گیا، اس طرح پاکستان نہیں چلا کرتا، پاکستان کی شناخت اس کا نظریہ، آئین اور جمہوریت ہے، کسی کو پاکستان کے نظریے، آئین اور جمہوریت سے کھیلنے نہیں دیں گے۔
سربراہ جے یو آئی ف نے کہا کہ ایک سال میں چینی، چاول اور آٹا کئی گنا مہنگا ہو گیا، 60 سے 70 فیصد ہماری برآمدات کا دار و مدار زراعت پر ہے تاہم حکومت کی زرعی پالیسی میں کپاس کا ذکر ہی نہیں، ہمارا سٹیٹ بینک بھی خسارے میں جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک منظور نظر، نااہل شخصیت کی ملوں میں 40 فیصد چینی ذخیرہ کی گئی، کیا اس کیلئے پاکستان حاصل کیا گیا تھا اور قربانیاں اسی لیے دی گئی تھیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمیں کہتے ہیں کہ عدالت کے فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے جلسہ کریں، ہم نے کہا تم نے کتنی عدالتوں کے فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دھرنے کیے۔
ایک انٹرویو میں سربراہ جے یو آئی ف نے کہا کہ ہر پارٹی نے انتخابی دھاندلی کا مشاہدہ کیا، دھاندلی کی تحقیقات کے لیے سربراہ بھی حکومتی رکن کو بنایا گیا، ایک سال ہو گیا لیکن تحقیقاتی کمیٹی کے قواعد و ضوابط بھی نہیں بنائے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد اس لیے ہدف ہے کہ یہ دارالحکومت ہے، یہ دھرنا نہیں آزادی مارچ ہے اور ہمارے مارچ کے پیچھے دنیاوی طاقت ہمارے کارکن ہیں، دھرنے سے ہماری جماعت کے نظریاتی اہداف کو تحفظ مل گیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میں اور میرے کارکن ایک دوسرے سے راضی ہیں، تحریک کی کوئی حد نہیں ہوتی، منزل مقاصد کا حصول ہوتا ہے اور کارکنوں نے کہا کہ وہ بیٹھے ہیں اور بیٹھے رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اور بلاول نے مارچ نومبر تک ملتوی کرنے کامشورہ دیا تھا، ہم نے کہا کہ سردیاں بڑھ جائیں گی پھر آنہیں سکیں گے۔
این آر او سے متعلق سوال پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ این آر او کو بدنام کر دیا گیا ہے، اس کا مقصد ملک کو جمہوریت کی طرف لے جانا ہے، دونوں بڑی پارٹیاں چارٹر کے ذریعے ملکی سیاست میں واپس آئی تھیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ حکومت کی ناکام سفارت کاری کی وجہ سے کشمیر پر یہ دن دیکھنا پڑا، جب تک ہم تھے حالات کنٹرول رکھے کہ بھارت ایسا اقدام نہ کر سکے، عمران خان نے کہا تھا مودی کی حکومت آئے گی تو مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا۔فیس سیونگ سے متعلق سوال پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں محفوظ راستے کی ضرورت نہیں، ضرورت اْن کو ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ استعفے سے کم نہیں تو اس کے برابر کی صورت سامنے آئے، عمران خان کا استعفیٰ لینے کے لیے حکمت عملی تبدیل ہو سکتی ہے۔
دھرنے سے دیگر سیاسی جماعتوں کو فائدہ پہنچنے سے متعلق سوال پر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ان کے دباؤ سے حلیف جماعتوں کو فائدہ ملتا ہے تو خوشی ہو گی۔مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہم نے آئین، جمہوریت اور اصولوں کی جنگ لڑنی ہے۔ آئین سے دور جائیں گے تو تصادم ہوگا۔
مولانا فضل الرحمن کا دھرنے کے شرکا سے خطاب میں کہنا تھا کہ دوسروں کو چور کہنا آسان ہے۔ نواز شریف سے تلاشی کا مطالبہ کرنیوالے فارن فنڈنگ کیس میں تلاشی دیں۔ اربوں روپے فنڈز کا حساب الیکشن کمیشن کو نہیں دیا گیا۔ ایسے لوگوں کا ملک پر مسلط ہونا عذاب الٰہی سے کم نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کہتے تھے اگر15 ہزار لوگ گو عمران گو کا نعرہ لگا دیں تو مستعفی ہو جاؤں گا۔ اب عدالتوں کے پیچھے چھپ رہے ہیں۔ کوئی بھی موجودہ حکومت پراعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ملک افراتفری کا شکار ہے۔ مہنگائی سے ہر طبقہ پریشان ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا غلام بنا دیا گیا۔