جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل بابر ستار نے دلائل میں کہا ہے کہ بہتر تھا جسٹس فائز کی اہلیہ کو شوکاز جاری کرکے جواب طلب کیا جاتا۔
جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی فل بنچ نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف جسٹس قاضی فائزعیسی کی درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل بابر ستارنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کے خلاف کیس میں منی لانڈرنگ یا فارن ایکسچینج ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام نہیں بلکہ بنیادی الزام انکم ٹیکس آرڈیننس کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا الزام ہے کہ جسٹس قاضی فائزعیسی نے آمدن کے ذرائع نہیں بتائے، کل آپ نے شہری حقوق پر بات کرتے ہوئے منیراے ملک کے دلائل کی مکمل نفی کی۔
بابر ستار نے جواب دیا کہ ممکن ہے ناتجربہ کاری کے باعث اپنی بات کی وضاحت نہ کر سکا،11 مارچ 1999 کو جسٹس قاضی فائزعیسی ایف بی آر کے پاس رجسٹرڈ ہوئے، ایف بی آرکے اندرونی طریقہ کار کے علاوہ سپریم جوڈیشل کونسل سمیت کوئی اتھارٹی ٹیکس معلومات نہیں دیکھ سکتی، جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ پبلک سروس میں نہیں ان کی معلومات شیئر نہیں کی جا سکتیں۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے بابر ستار سے کہا کہ آپ کا کہنا ہے کہ جب سارا مواد صدر کے پاس گیا تو ان کو مواد حاصل کرنے کے قانونی طریقہ کار کو دیکھنا چاہیے تھا، شاید تکنیکی بنیادوں پرآپ درست کہہ رہے ہوں لیکن یہ نکات بہت چھوٹے ہیں۔
بابر ستار نے کہا کہ بہترتھا کہ معلومات پر جسٹس عیسی کی اہلیہ کو شوکاز جاری کرکے جواب طلب کیا جاتا، ممکن ہے جسٹس عیسی کی اہلیہ کے جواب سے ٹیکس اتھارٹیز مطمئن ہو جاتیں، اگر اتھارٹیز مطمئن نہ بھی ہوتی تو بھی دوبارہ جائزہ کا حکم دیا جا سکتا تھا۔جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔