جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کےفل کورٹ بینچ نےجسٹس قاضی فائزعیسٰی اور دیگر کی جانب سے صدارتی ریفرنس کے خلاف آئینی درخواستوں کی سماعت کی۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی قانونی ٹیم کےرکن بابر ستار نے دلائل دیتے ہوئے کہا انکم ٹیکس قانون کےمطابق خود کفیل بیوی بچوں کے اثاثےظاہر کرنے کی کوئی شرط نہیں، ٹیکس فارم میں اپنے طورپر تبدیلی ممکن نہیں۔
دوران سماعت جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم یہاں ویلتھ اسٹیٹمنٹ فارم دیکھنے نہیں بیٹھے، بنیادی سوال یہ ہے کہ رقم کہاں سےآئی؟۔
بابر ستارنے جواب دیا کہ سارا معاملہ ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ کا ہے۔
اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ کیا قانون کےتحت وہ اثاثےظاہر کرنے کے پابند نہیں؟ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ جو اثاثے آپ کے نہیں آپ اسے کیسے ظاہرکرسکتے ہیں؟۔
جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ الزام یہ ہے کہ شاید منی لانڈرنگ کےذریعے اثاثے بنائے گئے۔
اس پر بابر ستار ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ بغیر شواہد الزامات لگائےگئے، صدر مملکت کے پاس ایسا کون سا مواد تھا؟
جسٹس منصورعلی شاہ کےاستفسار پر بابر ستار نے بتایا کہ ان کے مؤکل کو کوئی نوٹس نہیں بھیجا گیا۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا پھر تو بات ہی ختم ہوگئی۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے وکیل بابر ستار نے عدالت میں کچھ سوالات اٹھاتے ہوئے یہ بتایا کہ ان کے مؤکل (جسٹس فائزعیسیٰ) کی اہلیہ نے وزیراعظم عمران خان سے بھی زیادہ ٹیکس دیا۔
انہوں نے سال 2017 کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم نے اُس سال صرف ایک لاکھ 3 ہزار 7 سو 63 روپے ٹیکس ادا کیا۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ایسا شخص جو خود بہت کم ٹیکس ادا کرتا ہو وہ دوسروں پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔
جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی بیوی تو وزیراعظم عمران خان کی طرح مالی طور پرخود مختار ہیں اورکیا انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے زیادہ ٹیکس ادا نہیں کیا؟
اس پر بابر ستار نے عدالت کو بتایا کہ ایسا ہی ہے ۔ کیس کی مزید سماعت منگل تک ملتوی کردی گئی۔