آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ نے آرمی ایکٹ اور ریگولیشنز کی کتاب سینے سے لگا کر رکھی ہے،آرمی رولز کی کتاب پر لکھا ہے غیر متعلقہ شخص نہ پڑھے،آئین کی کتاب ہمارے لیے بہت محترم ہے،اسی کتاب سے ہم مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں۔
پریم کورٹ آف پاکستان میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہرعالم اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل بنچ نے سماعت کی۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے آرمی ایکٹ اور ریگولیشنز کی کتاب سینے سے لگا کر رکھی ہے،آرمی رولز کی کتاب پر لکھا ہے غیر متعلقہ شخص نہ پڑھے،آئین کی کتاب ہمارے لیے بہت محترم ہے،اسی کتاب سے ہم مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ آئین کی کتاب ملک کیلیے بائبل کی حیثیت رکھتی ہے،سمری میں تنخواہ،مراعات اورمدت ملازمت واضح کردیں گے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ پہلے توسیع ہوتی رہی اور کسی نے جائزہ نہیں لیا،کوئی دیکھ نہیں رہاکہ کنٹونمنٹ میں کیا ہو رہا ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اب آئینی ادارہ اس مسئلے کا جائزہ لے رہا ہے،آئینی عہدے پر تعیناتی کا طریقہ کار واضح لکھا ہونا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سمری میں آرمی چیف کی تنخواہ کا ذکر ہے نہ مراعات کا،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ نے پہلی بارکوشش کی ہے کہ آئین پرواپس آئیں،اس معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ نہیں دینا چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دے کر ایسا لگتا ہے کہ ہمارا کندھا استعمال کیا جارہا ہے،ہم کبھی بھی مشکل میں نہیں رہے،ہمیشہ آئین اور قانون کی پابندی کرنے والے رہے ہیں،آرٹیکل 243کے تحت جوسمری آپ نے بنائی ہے اس میں 3 سال مدت ملازمت لکھ دی ہے،کل آرمی ایکٹ کا جائزہ لیا تو بھارتی اور سی آئی اے ایجنٹ کہا گیا۔