لاہور ہائیکورٹ نے حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کی ملکیتی العریبیہ شوگر مل کےاثاثے منجمد ہونے کیخلاف درخواست نا قابل سماعت قرار دے کر مسترد کردی۔
جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی اور درخواست گزارکی طرف سے ایڈووکیٹ سلمان احمدبٹ پیش ہوے۔ ہائی کورٹ نے درخواست پر دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
العریبیہ شوگر مل کی جانب سے عدالت میں دائر درخواست میں چیرمین نیب، ڈی جی نیب اور تفتیشی افسر سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ چیرمین نیب کو سیکشن 12 کے تحت کو نیم عدالتی اختیار دیا گیا ہے اور قانون کہتا ہے کہ جس کو یہ اختیار دیا جائے وہ اسے آگے منتقل نہیں کر سکتا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ مذکورہ کیس میں چیئرمین نیب کے اختیارات ڈی جی نیب نے استعمال کیے جس کی قانون اجازت نہیں دیتا اور نیب لاہور نے خلاف قانون اقدام اٹھاتے ہوئے العزیزیہ اسٹیل مل کے اثاثہ جات کو فریز کیا۔
متن میں درج ہے کہ مذکورہ کمپنی کی شئیر ہولڈر کے علاوہ قانونی طور پر الگ حیثیت ہے، کمپنی کے اثاثہ جات سے شئیر ہولڈر اور ڈائریکٹرز کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس معاملے میں کمپنی کی ایک الگ قانونی حثیت ہے اور ملزمان کا اثاثہ جات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
عدالت میں موقف اپنایا گیا کہ کمپنی نہ ہی مجرم ہے اورنہ ہی کسی کی رشتہ دار ہے، کمپنیز ایکٹ کی شق 41 بی کے تحت جب تک ایس ای سی پی انکوائری نہ کرلے تب تک ریفرینس فائل نہیں کیا جا سکتا۔
نیب بیورو کی جانب سےدرخواست گزار کی کمپنی پر مانیٹرنگ آفیسر تعینات کیا گیا جو غیر قانونی ہے۔ درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ شہباز شریف، سلمان شہباز سمیت دیگر کیخلاف نیب لاہور میں انکوائری زیر التوا ہے جب کہ اس سے قبل کوئی بھی ریفرینس یا انکوائری التوا میں نہیں۔
عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ چیئرمین نیب سمیت دیگر کو کمپنی کے معاملات میں دخل اندازی سے روکا جائے اور نیب کا 25 نومبر 2019 کا آڈرغیر قانونی اور کالعدم قرار دیا جائے۔
خیال رہے کہ ڈائریکٹر نیب لاہور نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیسز میں شریف فیملی کی دس انڈسٹریز منجمد کرنے کے احکامات جاری کیے۔ ذرائع کے مطابق انڈسٹریز میں چنیوٹ انرجی لمیٹڈ، رمضان انرجی، شریف ڈیری اور کرسٹل پلاسٹک انڈسٹری، العریبیہ شوگرمل، شریف ملک پروڈکٹس، شریف فیڈ ملز، رمضان شوگر ملز اور شریف پولٹری شامل ہیں۔