امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد ہفتہ کو کابل سے دوحہ پہنچ گئے، جہاں تین ماہ کے تعطل کے بعد افغانستان میں جنگ بندی کی کوششوں پربات چیت دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔
قطر میں ہونے والی بات چیت کا مقصد امریکا اور طالبان کے درمیان کسی ممکنہ سمجھوتہ کے بعد طالبان اورکابل میں قائم افغان حکومت کے درمیان براہ راست امن مذاکرات کیلیے راستہ تلاش کرنا ہے۔
ترجمان کا کہناہے کہ مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں تشدد میں کمی اورجنگ بندی کی کوشش کی جائے گی،
افغانستان میں اٹھارہ سال سے جاری قتل وغارتگری کے خاتمے کا دارومداران مذاکرات کی کامیابی پر منحصر تصورکیا جاتا ہے۔ افغانستان ميں نیٹو ممالک کے فوجیوں کے علاوہ13 ہزار امريکی فوجی تعينات ہيں۔
امریکی حکومت کی خواہش ہے کہ اگلے سال امریکا میں صدارتی الیکشن سے پہلے کوئی معاہدہ طے پائے جائے تاکہ ٹرمپ افغانستان سے وعدے کے مطابق ہزاروں امریکی فوجی نکال سکیں۔ پچھلے ہفتے ٹرمپ نے بگرام کے امریکی اڈے پر مختصر غیر اعلانیہ دورے میں کہا تھا کہ طالبان بھی امریکا کے ساتھ اپنے معاملات طے کرنا چاہتے ہیں۔
واضع رہے کہ ستمبر میں فریقین کے درمیان مذاکرات لگ بھگ طے ہوچکے تھے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک طالبان کے ساتھ بات چیت ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔بعدازاں پاکستان کی میزبانی میں اکتوبر میں افغان طالبان کے ایک اعلیٰ وفد نے امریکا کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد کے ساتھ اسلام آباد میں ملاقات کی اور فریقین کے درمیان رابطے بحال ہوئے۔