وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم سواتی نے کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار چھوٹا آدمی ہے۔ وہ وزیراعظم عمران خان کو دکھانا چاہتے تھے کہ میں بڑا آدمی ہوں اور بڑی کرسی پر بیٹھا ہوں، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت کے معاملے پر جسٹس آصف سعید کھوسہ مشورہ تو دے سکتے ہیں لیکن پارلیمان کو قانون سازی کا حکم نہیں دے سکتے۔
نجی ٹی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اعظم سواتی نے کہا کہ میرے اوپر کرپشن کا الزام نہیں بلکہ اختیارات کے غلط استعمال کا الزام تھا اور میں نے اسی وقت استعفیٰ دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ثاقب نثار عدلیہ میں کسی قسم کی بہتری نہیں لانا چاہتے تھے بلکہ ایڈوینچر کے شوقین تھے اور انہوں نے سارا ڈھنڈورا اس لیے مچایا کہ وہ عمران خان کو اپنی اہمیت دکھانا چاہتے تھے۔
اعظم سواتی کے بقول وہ عمران خان کو دکھانا چاہتے تھے کہ میں بڑا آدمی ہوں اور ایک بڑی کرسی پر بیٹھا ہوں۔ اعظم سواتی نے مزید کہا کہ ثاقب نثار نے لاہور میں بننے والا پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ اور اسلام آباد کے سینٹورس کو بھی تباہ کیا۔ اس آدمی نے ایڈونچر ازم اور یہی بات سابقہ چیف جسٹس جمالی صاحب تھے کہ وہ اپنی ان حدود سے جو آئین کے مطابق چیف جسٹس کو دی جاتی ہیں ان سے باہر نکل چکا تھا جس کی وجہ سے اس کو jurisprudence (علم قانون)میں ایڈونچر ازم کہتے ہیں۔
اس سوال پر کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر آپ نے الزام لگایا کہ وہ ایڈونچرازم کررہے تھے،تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان کی جانب سے کیے گئے غلط فیصلے تھے؟ اعظم سواتی نے کہا کہ میں سارے فیصلوں کی بات نہیں کرتا، آپ جو قانونی برادری ہے ان سے پوچھ لیں اور جو کچھ میڈیا کے اندر آرہا ہے ذرا وہ دیکھ لیں کہ جس طریقے سے وہ کورٹ کے اندر لوگوں کے ساتھ برتاؤ کرتے تھے
ان کا کہناتھا کہ جس طرح وہ بات کرتے تھے، جس طرح ایڈریس کرتے تھے کیا کوئی چیف جسٹس آپ کو کوئی اور چیف جسٹس اس قدر تلخ لہجہ کے اندر، اس قدر نامناسب رویہ کے اندر بات کرتے دیکھا ہے، یہ ابھی جوائی ہے ذرا ٹیپ نکال کر دیکھیں کس الفاظ کے اندر وہ الفاظ ان کے لئے استعمال کیے یا دوسروں لوگوں کے مطابق یا وہ کونسل کا ممبر جو گلگت بلتستان سے تھا اس کے ساتھ ان کا جو رویہ تھا۔
اعظم سواتی نے کہا کہ چیف جسٹس انتہائی مقدس مقام ہے، میں سمجھتا ہوں کہ جیوڈیشل سسٹم کے اندر سب سے بڑا عہدہ ادب کے لحاظ سے، رویے کے لحاظ سے، قانون اور اخلاق کے لحاظ سے جو ہے وہ چیف جسٹس کا ہے جس کے اوپر دیگر پرسنالٹیز بھی اور باقی جج صاحبان بھی۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے فیصلےپر اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے اس حوالے سے مشورہ تو دے سکتے ہیں لیکن پارلیمان کو قانون سازی حکم نہیں دے سکتے۔
یاد رہے کہ اعظم سواتی اور سابق چیف جسٹس اس وقت آمنے سامنے آئے جب اعظم سواتی پر ایک خانہ بدوش بچے اوراس کی بہن کو تشدد کا نشانہ بنانے اور پھر پولیس پر دباؤ ڈال کرانہیں گرفتار کروانے کے الزامات عائد ہوئے۔ اس وقت اعظم سواتی سائنس و ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر تھے۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو ثاقب نثارنے انہیں حکم دیا کہ عہدہ چھوڑ کر گھر چلے جائیں ورنہ آپ کو نا اہل کردوں گا جس پراعظم سواتی نے استعفیٰ دینے کو ترجیح دی۔