ایران اور امریکا کے درمیان مشرق وسطیٰ میں تازہ فوجی کشیدگی نے یورپ کو بظاہر مخمصے میں ڈال دیا ہے کہ وہ امریکا کا ساتھ دیں یا پھر ایران کے ساتھ چار سال پہلے طے پانے والے ایٹمی معاہدے کو بچائیں۔
ایران کے ساتھ چار سال پہلے طے پانے والے عالمی معاہدے میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی اہم فریق ہیں، جبکہ صدر ٹرمپ پہلے ہی امریکا کو صدراوباما کے دور کے اس سمجھوتے سے الگ کر چکے ہیں۔
یورپی یونین کا کہنا ہے اس کی پوری کوشش ہوگی کہ امریکا اورایران کے درمیان تازہ کشیدگی کے باوجود سمجھوتے کو قائم رکھا جائے۔لیکن بعض مبصرین کے نزدیک حالیہ تنازع میں یورپ امریکا کو خفا کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا اور اپنی تمام تر خواہش کے باوجود شاید یورپی سفارتکاراب ایران کے ساتھ جوہری ڈیل نہ بچا پائیں۔
ایک بیان میں یورپی کمیشن کی صدر اْرزلا فان ڈیئر لائن نے واضع کیا کہ کہ ان کی کوشش ہوگی کہ آگے جا کراس عالمی معاہدے کے تمام فریقین کو اعتماد میں لیا جائے اور ایران کی طرف سے سمجھوتے کی مزید پاسداری نہ کرنے کے بیان کے باوجود اس ڈیل کو بچایا جائے۔
اپنے بیان میں انہوں نے فریقین پرخطے میں کشیدگی کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔اسی طرح یورپی یونین کے خارجی امور کے سفا رتکار جوزف بورل کا کہنا ہے کہ امریکا کی طرف سے ایران کے اہم تریں فوجی کمانڈر کی ہلاکت اور جواب میں ایران کی طرف سے دو امریکی فوجی اڈوں حملوں سے خطے کی صورتحال بگڑ رہی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ یہ کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں اور فریقین کو چاہیے کہ وہ خطے میں مزید کسی فوجی ایکشن سے گریز کریں۔ اس بحران کے ممکنہ خاتمے کے لیے یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک خصوصی اجلاس جمعہ کو بلا لیا گیا ہے۔
اس موقع پر یورپی یونین نے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کو بات چیت کے لیے برسلز آنے کی دعوت دی ہے۔ادھر تہران کے قریب یوکرائن کے مسافر بردار ہوائی جہاز کریش کر جانے کے بعد جرمن ائیرلائن لفتھانزا نے بدھ کو فرینکفرٹ سے تہران جانے والی اپنی پرواز منسوخ کر دیں۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ اقدام احتیاطی طورپرلیا گیا اور موجودہ حالات کے پیش نظر فی الحال لفتھانزا کی پروازیں ایران اور عراق کی فضائی حدود سے گریز کریں گی۔ اسی طرح ائیر فرانس نے بھی مسافروں کی حفاظت کے پیش نظر اپنی پروازیں ایران اورعراق کی فضائی حدود سے باہر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔