نیب نے ترمیمی آرڈیننس کے باوجود مالم جبہ اسکینڈل کی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت کیلیے خطرے کی گھنٹی بجادی۔مالم جبہ اسکینڈل میں حکومتی وزرا اور بیوروکریٹس کا معاملہ ایگزیکٹو بورڈ کو ارسال کردیا ۔
نیب ہیڈ کوارٹر میں گذشتہ روز پری ایگزیکٹو بورڈ کے دوران ترمیمی آرڈیننس کی روشنی میں مالم جبہ اسکینڈل کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا گیا۔ 28دسمبر 2019 سے قبل جاری انکوائریوں اورانوسٹی گیشنز پر نیب ترمیمی آرڈیننس کا اطلاق نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔مالم جبہ اسکینڈل میں ایگزیکٹو بورڈکی جانب سے آئندہ اجلاس میں ریفرنس کی منظوری دیے جانے کا امکان ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق ترمیمی آرڈیننس کے اطلاق سے متعلق نیب نے گائیڈ لائنز وضع کرتے ہوئے وزیردفاع پرویز خٹک، سابق ایڈیشنل سیکریٹری موجودہ ایم ڈی ٹورازم کارپوریشن خالد پرویز اور وزیراعظم آفس میں تعینات بیوروکریٹ کے خلاف ریفرنس کا معاملہ ایگزیکٹو بورڈ کو ارسال کردیا گیا ہے۔
نیب حکام کے مطابق اب تک کی گئی تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ سیمسن گروپ آف کمپنیزاس کنٹریکٹ کو حاصل کرنے کی اہل نہیں تھی لیکن اس کے باوجود قواعد و ضوابط کی خلاف وزری کرتے ہوئے کمپنی کو پراجیکٹ دیا گیا اور اسی لیے پراجیکٹ کے ٹینڈر جمع کرانے کی تاریخ بھی بڑھائی گئی۔ مالم جبہ اسکینڈل 7 جنوری 2018 کو منظرعام پر آیا تھا۔
چیئرمین نیب نے اسے بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی واضح مثال قرار دینے کے بعد 9 جنوری 2018 کو تحقیقات کا حکم دیا۔ وزیر دفاع پرویز خٹک، سی ایم خیبر پختونخوا محمود خان ، صوبائی وزیر کھیل و ثقافت عاطف خان اور متعدد بیوروکریٹس نے اپنے بیانات قلمبند کرائے۔ ذرائع کے مطابق اس منصوبے کے لئے فزیبلٹی رپورٹ بنائی گئی اور نہ ہی کوئی تکنیکی ، مالی یا پری کوالیفکیشن معیار طے کیا گیا۔
محکمہ سیاحت نے منصوبہ کے لیے تجربہ کار کمپنیوں سے ٹینڈر طلب کیے تھے۔ سیمسن گروپ آف کمپنیز کے پاس ہوٹل یا چیئرلفٹ چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔یہ کمپنی اس پراجیکٹ کے لیے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اتری۔ اس کے باوجود ، ایک ذیلی کمیٹی نے تکنیکی معیار کے مطابق کمپنی کو 60.5 نمبر دیئے۔ متعلقہ افسر تحقیقات کے دوران اس سلسلے میں کوئی وضاحت نہیں دے سکے۔
کمپنی نے مالم جبہ ہوٹل کے لئے 60 لاکھ روپے ( 12 لاکھ فی ایکڑ) کی پیش کش کی۔ بعد میں کمپنی نے ہوٹل اور چیئرلفٹ دونوں کے لیے 60، 60 لاکھ روپے کی دو بولیاں پیش کی جو قواعد کے خلاف تھی۔ نیب کی تحقیقات کے مطابق ، 275 ایکڑ میں سے 270 ایکڑ محکمہ جنگلات کے پی کے ملکیت تھی۔ یہ اراضی لیز پر دینا کے پی فارسٹ آرڈیننس کی دفعہ 105 کی خلاف ورزی تھی۔
جنگلات اور ماحولیات کے محکموں نے محفوظ اراضی کو لیز پر دینے کی مخالفت کی کیونکہ جنگل کی محفوظ اراضی مالم جبہ ہوٹل کا حصہ نہیں تھی۔ محکمہ جنگلات کی مخالفت کے بعد ، 12 ایکڑ اور 15 کنال کے لیز پر دینے کا نوٹیفکیشن 3 اپریل 2017 کو کے پی فارسٹ آرڈیننس کے سیکشن 32 کے تحت منسوخ کردیا گیا تھا۔ لیکن یہ منسوخی بھی غیر قانونی تھی کیونکہ وزیر اعلیٰ کو ایسی لیز منسوخ کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔
نیب کی تحقیقات کے مطابق ، سابق سی ایم پرویز خٹک نے لیزکی مدت 15 سال سے بڑھا کر 33 سال کرنے کی غیر قانونی منظوری دے دی۔ تاہم ، 25 اپریل ، 2018 کو نیب کے سامنے پیش ہونے کے بعد ، انہوں نے توسیع کو قانونی احاطہ دینے کے لیے 4 مئی ، 2018 کو کابینہ سے منظوری حاصل کرلی۔