چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے ایک کیس کی سماعت میں ریمارکس دیے کہ خیبر پختونخوا حکومت کا کیا علاج کروں، وہ کیسے نظام چلا رہے ہیں۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سروس امور سے متعلق خیبر پختونخوا حکومت کی درخواست کی سماعت کی۔عدالت نے ڈائریکٹرایلمنٹری ایجوکیشن خیبر پختونخوا کی سروس امور میں درخواستیں زائد المیعاد ہونے پرخارج کردیں۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل آفس کو معاملے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ تاخیرکے ذمے داران افراد کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے اورانہی سے رقم ریکور کی جائے۔عدالت نے تین ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے رجسٹرارآفس کو آگاہ کرنے کا حکم دیا۔
جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت کی روش ہے کہ ان کی اکثردرخوستیں زائد المیعاد ہوتی ہیں، پانچ پانچ لاکھ کے جرمانے صوبائی حکومت کو ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان گلزاراحمد نے ریمارکس دیے کہ خیبر پختونخوا حکومت کا کیا علاج کروں؟،کے پی والے کیسے حکومت کا نظام چلا رہے ہیں، سارے افسران اور بابو دانستہ تاخیر کرتے ہیں، یہ عمل جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل قاسم ودود نے کہا کہ اراضی کے مقدمات میں التوا جان بوجھ کرہوتا ہے،لیکن اس سروس میٹر میں محکموں کے درمیان رابطوں کے فقدان کے باعث تاخیر ہوئی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ وضاحت عدالت کے لیے قابل قبول نہیں۔