قومی اسمبلی میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی جس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
اسپیکراسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں مسئلہ کشمیر پر بحث ہوئی۔ سید فخر امام نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے قرارداد ایوان میں پیش کی جس کے متن میں کہا گیا ہےکہ یہ تاریخی قرارداد ہے اور پانچ فروری کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن ہے۔
19 نکاتی قرارداد میں کہاگیا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیاں جاری ہیں، سویلین آبادی پر بھارت کی اشتعال انگیز کارروائیاں جاری ہیں، بھارت میں نسلی پیمانے پراستحصال جاری ہے۔
قرارداد میں بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں چھ ماہ سے نافذ کرفیو فوری طور پرختم کیا جائے اور بھارت کالے قوانین واپس لے جبکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف عالمی تحقیقات کرائی جائیں۔
قرارداد میں 7 دہائیوں سے کشمیریوں کی قربانیوں پرعالمی ضمیر سے نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے 5 اگست کے کشمیرکو بھارت کا حصہ بنائے جانے کی شدید مذمت کی گئی۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ او سی آئی کا کشمیر پر فوری طور پر خصوصی اجلاس بلایا جائے، فوجی مبصر گروپ مقبوضہ کشمیر میں تعینات کیا جائے جبکہ کشمیری رہنماؤں شبیر شاہ، یسین ملک، میر واعظ، آسیہ اندرابی، ڈاکٹر قاسم فکتو، سید علی گیلانی کو رہا کیا جائے۔
قرارداد میں کہا گیاہےکہ کشمیر عوام سات دہائیوں سے بھارتی تسلط میں محصور ہیں اور حق خود ارادیت کے لیے 7 دہائیوں سے جدو جہد کر رہے ہیں، خواتین اور بچوں سمیت کشمیری قربانیاں دے رہے ہیں۔
قرارداد میں مزید کہا گیاہے کہ کشمیر عالمی تنازع ہے اور اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر1948 سے حل طلب معاملہ ہے، اقوام متحدہ نے حالیہ دنوں میں دو بار کشمیر کا متنازع معاملہ تسلیم کیا لہٰذا کشمیریوں کو یو این قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دیا جائے۔
قرارداد میں کہا گیاہےکہ بھارت کی 9 لاکھ فوج نے دنیا کا سب سے بڑا جیل خانہ بنا دیا ہے، 13 ہزار نوجوانوں کو نا معلوم مقامات پر قید رکھا ہوا ہے، پیلٹ گنز کا استعمال ہزاروں کشمیریوں کو زخمی کیا گیا۔
قرارداد میں کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا بھی اعادہ کیا گیا ہے۔
قرارداد کی منظوری کے بعد اسپیکرقومی اسمبلی اسد قیصرنے اجلاس جمعرات کی صبح11بجے تک کیلیے ملتوی کردیا۔
قبل ازیں اجلاس شروع ہونے پر مولانا عبدالشکورنے کہا کہ صرف کشمیر نہیں پورے بھارت کے مسلمان ظلم کا شکار ہیں،عالمی برادری اور اقوام متحدہ کو کردار ادا کرنا چاہئے۔
سردار نصر اللہ دریشک نے کم حاضری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ میری پچاس سالہ سیاسی زندگی کا سب سے اہم ایشو کشمیر ہے، آج قومی اسمبلی کا خالی ایوان ہماری منافقت کا اعلان کررہا ہے، کل تک آرمی ایکٹ،اٹھارہویں ترمیم، تنخواہوں کے معاملہ پر یہ ایوان کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، کاش آج ہم کشمیر پر بھی اسی طرح اکٹھے ہوجائیں۔
عبدالقادرپٹیل کا کہنا تھا کہ ٹرمپ افغانستان سے بھاگنے کے چکر میں آپ کو کشمیر پر باربار ثالثی کی پیشکش کررہا ہے، ٹرمپ ہمارا مسئلہ کیوں حل کرائے گا، اپنے اندر کے اتحاد کی بجائے ہم باہر سے مدد لینے چلے ہیں، بتائیں اگر لڑیں گے نہیں تو قراردادوں سے مسئلے کا حل ہوجائے گا۔
انہوں نے کہاکہ سعودی عرب میں کشمیرکی آزادی کیلیے دعا کیوں نہیں ہوتی، جن کے حکم پر ہم ملائیشیا کانفرنس نہ گئے وہ سعودی عرب میں کشمیر کے لیے دعا تو کرادیا کریں۔
شیریں مزاری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ حکومت نے کشمیر پر کچھ نہیں کیا، حکومتی کوششوں سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے متعدد بار کشمیر کے حوالےسے بیانات آئے، سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا، یورپی یونین نے بھارتی اقدامات کی مذمت کی۔
شیریں مزاری نے کہاکہ آزاد کشمیر میں اقوام متحدہ کی امن فورس موجود ہے، ہمیں مقبوضہ کشمیر میں بھی اقوام متحدہ کی امن فورس تعینات کرنے کا مطالبہ کرنا چاہئے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ جو چائے بھارت کو پلائی تھی اب تک اس کی گرمی محسوس ہوتی ہوگی، آئندہ ایسی کوئی حرکت کی تو پھر مزہ چکھائیں گے، وہ جنگ چاہتے ہیں تو ہمیں لڑنا بھی آتا ہے اورامن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے، ہم امن چاہتے ہیں لیکن عزت کا سودا نہیں کریں گے۔ علی گوہر نے کہا کہ کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے جسے آزاد کرا کے رہیں گے۔