سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں تجاوزات کیخلاف آپریشن اور سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق کیس میں چیف جسٹس پاکستان نے وسیم اختر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میئرصاحب،کراچی کے اصل سربراہ تو آپ ہیں ،آپ بتائیں،آپ نے کیا کیا؟۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جو کچھ راستے میں آتا ہے،ایک ہفتے میں سب توڑ دیں،ریلوے کی ہاﺅسنگ سوسائٹیز ہوں یا پٹرول پمپ سب گرائیں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں تجاوزات کیخلاف آپریشن اورسرکلرریلوے کی بحالی سے متعلق کیس پرسماعت ہوئی،چیف جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سماعت کی ،عدالتی احکامات پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھا۔
عدالت نے کہا کہ بتائیے،کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق کس نے کیا عملدرآمد کیا ،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم جاننا چاہتے ہیں ابتک کیا پیش رفت ہوئی ،ہم نے آپ کی رپورٹ پڑھی ہے مگرعملدرآمد نہیں ہورہا۔
چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ چیف سیکریٹری صاحب کہاں ہیں ؟چیف جسٹس نے کہاکہ کمشنر صاحب ،سن لیں ایک ہفتے میں ریلوے کی زمین سے قبضے ہٹائیں۔چیف جسٹس گلزاراحمدنے استفسار کیا کہ سرکلر ریلوے کی بحالی کا کیاہوا؟۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ چینی حکومت معاہدے کے بعد رقم جاری کرتی ہے ،وفاق نے ابھی تک معاہدہ چینی حکومت کو نہیں بھیجا ۔چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کراچی میں سرکلر ریلوے بحال کریں مسئلہ کیا ہے ؟،ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ سرکلر ریلوے کے 24 دروازے کھلیں گے توشہر جام ہو جائے گا۔
چیف سیکریٹری نے کہا کہ جولوگ تاخیر کے ذمے دارہیں سب کی تنخواہیں بند کردیں،عدالت نے کہا کہ جب آرڈرپاس ہواتوساری چیزیںموجود تھیں آپ نہیں جانتے تھے یہ مسائل؟سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ ہم تاخیر نہیں کررہے جو ذمہ داری ہے پوری کررہے ہیں ۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت چاہتی ہی نہیں کہ سرکلر ریلوے چلے ،عدالت نے کہا کہ ابھی وزیراعلیٰ اورسیکریٹری ریلوے کوتوہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہیں،میئرکراچی اور کمشنر کراچی کو بھی توہین عدلت کانوٹس جاری کرتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میئر اور سندھ حکومت کو کہتے ہیں ایک ہفتے میں غیرقانونی عمارتیں گرادیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میئرصاحب کہاں ہیں، قریب آجائیں
چیف جسٹس پاکستان نے وسیم اختر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میئرصاحب،کراچی کے اصل سربراہ تو آپ ہیں ،آپ بتائیں،آپ نے کیا کیا؟چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جو کچھ راستے میں آتا ہے سب توڑ دیں،ریلوے کی ہاﺅسنگ سوسائٹیز ہوں یا پٹرول پمپ سب گرائیں،ہمیں اصل حالت میں کراچی سرکلر ریلوے چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر سندھ حکومت نے ذمے داری لی تو پھر وزیرعلیٰ سندھ کو بلا لیتے ہیں وزیراعلیٰ کو طلب کرکے پوچھ لیتے ہیں ،معاہدے کے تحت وزارت ریلوے نے اپناکام نہیں کیا،یہ شہر آپ کی ذمے داری ہے ،جیلانی سٹیشن کو ازسرنوڈیزائن کرکے بحال کریں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں کچھ نہیں سننا یہ بتائیں ہمارے فیصلے پر عمل کیوں نہیں ہوا،محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی کوئی ویل نہیں ،وزیراعلیٰ سندھ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیتے ہیں ،میئروسیم اخترصاحب آپ کو بھی توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیتے ہیں ،سیکرٹری ریلوے کو بھی توہین عدالت کانوٹس جاری کردیتے ہیں ۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ میں چلتا ہوں میں چلا کردیکھادیتا ہوںکیا بات کررہے ہیں ،بیرسٹر فیصل صدیقی نے کہا کہ صرف غریبوں کے گھرتوڑے گئے ،ملٹی پل عمارتیں اب بھی ریلوے کی زمینوں پرقائم ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل نے استدعا کہ آپ توہین عالت کے نوٹس جاری نہ کریں ،زمین وزارت ریلوے نے دینا تھی ،اب تک ہماری ذمہ داری نہیں ،چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ آج کچھ اورکل کچھ کہہ رہے ہوں گے،آپ کو اپنا سیاسی ایجنڈا دیکھناپڑتا ہے آپ کبھی نہیں بنائیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ چلیں میرے ساتھ میں بتاتاہوں کیسے کام ہوتا ہے آپ لوگ سیاسی ایجنڈا،سیاسی مصلحت کی وجہ سے نہیں کررہے ہیں،جائیں ابھی جا کر بلڈوزکردیں سب غیر قانونی عمارتیں ،حسن اسکوائرپر دیکھیں کیا کچھ بن گیا ہے ۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کمشنر صاحب آپ جائیں آج ہی ساری عمارتیں گرائیں ،حسن سکوائرپر جائیں پوراعلاقے پر قبضہ ہے ،کمشنر کراچی نے کہاکہ ریلوے ٹریک پر کہیں قبضہ نہیں ،چیف جسٹس نے کہا کہ ریلوے ٹریک نہیں ریلوے زمین پر سے تمام قبضے خالی کریں،آپ سب کے الگ الگ ایجنڈے ہیں ۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ چلیں میرے ساتھ میں بتاتاہوں کیسے کام ہوتا ہے ،کے سی آرپر سیکرٹری ریلوے اورحکومت نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کردیئے،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں کچھ نہیں سننا کراچی سرکلر ریلوے کب بنائیں گے ؟،آپ اجلاس کے بعد ایک دوسرے پر ذمے داری ڈال رہے ہیں۔
سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ سندھ حکومت نے اپنے ذمہ کا کام نہیں کیا،ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ سیکریٹری صاحب غلط بیانی کررہے ہیں ،تجاوزات کا خاتمہ ،زمین سندھ حکومت کے حوالے کرنا ریلوے کے ذمہ تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ سیاسی ایجنڈا،سیاسی مصلحت کی وجہ سے نہیں کررہے ہیں،جائیں ابھی جا کر بلڈوزکردیں سب غیر قانونی عمارتیں ،حسن سکوائرپر دیکھیں کیا کچھ بن گیا ہے ۔
سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ کے سی آرآزمائشی طور پر چلانے کی پیشکش کی تھی،وکیل متاثرین نے کہاکہ وہاں گرین لائن منصوبہ بن گیا ہے،کیسے چلائیں گے؟،لوگوں کوبے گھر کردیااب کہہ رہے ہیں سرکلر ریلوے چل نہیں سکتی،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمارے پاس توہین عدالت کی کارروائی کاراستہ رہ گیاہے۔
عدالت نے سیکریٹری ریلوے سے ایپنک اجلاس کی تفصیلات طلب کرلیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ عدالت کو مطمئن نہ کر سکے تو سب کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کریں گے۔