جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کیس کا 12 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریرکیا۔فائل فوٹو
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کیس کا 12 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریرکیا۔فائل فوٹو

اٹارنی جنرل معافی مانگیں یامواد پیش کریں۔سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے کہا ہے کہ وہ بینچ سے متعلق اپنے بیان پریا تومواد پیش کریں یا معافی مانگیں۔

سپریم کورٹ کے فل بنچ نے صدارتی ریفرنس کیخلاف جسٹس فائزعیسی اور دیگرکی درخواستوں پر سماعت کی۔

اٹارنی جنرل انورمنصورنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائزعیسٰی کو برطانیہ کی جائدادیں گوشواروں میں ظاہرکرنی چاہیے تھیں، جسٹس قاضی فائزعیسٰی پر ریفرنس میں 2 الزام ہیں۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ گزشتہ روز بھی ادھرادھرکی باتیں ہوئیں، ہمیں کیس پرفوکس کرنا ہے، یہ دکھا دیں گے اہلیہ کے اثاثے دراصل معزز جج کے اثاثہ ہیں۔ جسٹس منیب اخترنے پوچھا کہ اگر جسٹس قاضی فائزعیسٰی گوشواروں میں پراپرٹی ظاہرکردیتے تو کیا آپ ریفرنس دائ کرتے؟َ

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس قاضی گوشواروں میں پراپرٹی ظاہر کر دیتے تو ریفرنس نہ بنتا، انہوں نے گوشواروں میں پراپرٹی ظاہر نہ کر کے مس کنڈکٹ کیا، انہوں نے جائدادیں تسلیم بھی کرلی ہیں۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ میں اگر کوئی پراپرٹی ظاہرنہ کروں تو کیا میرے کیخلاف ریفرنس دائر ہوگا؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم پراپرٹی کی خریداری کے ذرائع کو بھی دیکھ رہے ہیں۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ٹیکس کے معاملے کی انکوائری کے بغیر ریفرنس بنا دیا، کیا کوئی شخص اپنی اہلیہ اور بچوں کے غیر ملکی اثاثوں پر قابل احتساب ہے، کیا یہ ایک ایف آئی آر ہے یا صدارتی ریفرنس ہے؟ صدارتی ریفرنس ٹھوس مواد پرہوتا ہے، جج کی اہلیہ اور بچوں سے جواب مانگے بغیر ریفرنس بنا دیا، یہ دلائل کا طریقہ کار نہیں، تحریری طورپراپنے دلائل دیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے سوالات کے آئندہ تاریخ پر جواب دوں گا، تحریری دلائل نہیں دے سکتا۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ اٹارنی جنرل نے بینچ کے حوالے سے گزشتہ روز کچھ بیان دیا، اٹارنی جنرل اپنے بیان کے حوالے سے مواد عدالت میں پیش کریں،اگراٹارنی جنرل کو مواد میسر نہیں آتا تو تحریری معافی مانگیں، امید کرتے ہیں مطلوبہ دستاویزات پیش کی جائیں گی۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ تیاری کے بغیرعدالت آگئے ہیں، آپ ہمارا وقت خوبصورتی کےساتھ ضائع کررہے ہیں، کل آپ نے اتنی بڑی بات کردی ہے۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے مزید کہا کہ غیر ملکی اثاثوں کے حوالے سے قانون موجود ہے، وہ قانون بتائیں، اس قانون کا اطلاق ججزپرہوتا ہے یہ بھی بتا دیں؟۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ جج کیخلاف جوالزام ہے وہ واضح ہوناچاہیے،جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ یہ بتادیں ریفرنس کیلیے مواد کس طرح اکٹھاہوا؟،

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ بڑا اہم سوال ہے،جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ یہ بڑا بنیادی سوال ہے ،جسٹس منیب نے کہا کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ گوشواروں پر پراپرٹی ظاہرکردیتے توکیا ریفرنس دائر کرتے؟۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ اگر میں کوئی پراپرٹی ظاہر نہ کروں توکیامیرے خلاف ریفرنس دائر ہوگا؟،جسٹس مقبول باقرنے کہا کہ کیاجسٹس قاضی فائزعیسیٰ کو قانون کے مطابق پراپرٹی ظاہرکرنی چاہیے تھی؟۔

واضح رہے کہ گزشتہ روزاس کیس کی سماعت میں اٹارنی جنرل انور منصور خان نے اپنے دلائل کے آغاز میں فل کورٹ کے سامنے ایسا بیان دیا جسے سپریم کورٹ نے بلاجوازاورانتہائی سنگین‘ قراردیا۔ عدالت نے میڈیا کو بھی اس بیان کی رپورٹنگ سے روکتے ہوئے اسے شائع کرنے سے منع کردیا تھا۔