سپریم کورٹ میں پی آئی اے کے سربراہ کی تعیناتی سے متعلق کیس میں چیف جسٹس گلزاراحمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کے لوگو کیساتھ کیا معلوم کونسی فلم شوٹ ہوئی ہوگی ،فلم بنانے والی کمپنی اسرائیلی ہونا بہت سنجیدہ بات ہے ،جہازکی قیمت فروخت سے زیادہ لگتا ہے جرمنی پہنچانے کی ادائیگی کی گئی ،جہازجرمنی ایئرپورٹ پرپارک ہوا۔
میڈیارپورٹس کے مطابق پی آئی اے کے سربراہ کی تعیناتی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ،چیف جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں بنچ نے سماعت کی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ گمشدہ جہاز کے حوالے سے پی آئی اے کی رپورٹ پڑھی ہے،وکیل نیب نے کہا کہ پی آئی اے بورڈ نے عدالت کومکمل حقائق نہیں بتائے ،تحقیقات جاری ہیں ،عدالت مزید وقت دے ۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ نیب کو صرف وقت ہی چاہئے ہوتا ہے نیب اپنی تحقیقات جاری رکھے ،جسٹس اعجازالاحسن نے استفسارکیا کہ جہازفروخت کرنے کافیصلہ کب اورکہاں ہوا؟وکیل پی آئی اے بورڈ نے کہا کہ جرمن سی ای او نے جہازفروخت کرنے کافیصلہ کیا۔
چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ فیصلہ یہ ہواتھا کہ جہاز کمرشل مقاصد کیلیے استعمال نہیں ہوگا،سلمان اکرم راجہ نے کہاجہازمالٹا میں فلم کی شوٹنگ کیلیے استعمال ہوااس کے بعدجرمنی گیا ۔وکیل پی آئی اے بورڈ نے کہا کہ شوٹنگ کی مد میں ادارے کو2 لاکھ 10 ہزاریوروملے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پی آئی اے کے لوگو کیساتھ کیا معلوم کونسی فلم شوٹ ہوئی ہوگی ،فلم بنانے والی کمپنی اسرائیلی ہونا بہت سنجیدہ بات ہے،جہازکی قیمت فروخت سے زیادہ لگتا ہے جرمنی پہنچانے کی ادائیگی کی گئی ،جہازجرمنی ایئرپورٹ پرپارک ہوا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جائزہ لیا جارہاہے جہازاتناعرصہ جرمنی میں کیوں کھڑا رہا،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ نجی کمپنیاں اپنے ادارے کے حوالے سے ایک دن میں فیصلے کرتی ہیں،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جہاز فروخت کرنے کافیصلہ پی آئی اے بورڈ کا نہیں تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پی آئی اے نے اپنا ایک جہاز ہی بھجوا دیا،پی آئی اے نے مزید چارجہاز بھی گراﺅنڈ کیے،باقی 3 جہاز کہاں فروخت ہوئے کچھ معلوم نہیں ،چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ کیاباقی 3 جہاز کھول کرکباڑ خانے میں تونہیں دے دیے؟،کیاایسے حالات میں موجودہ انتظامیہ کوکام کرنے دیں؟۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کھلی عدالت میں مزید کچھ نہیں کہناچاہتا،پی آئی اے والے صرف کاغذی کارروائی کرکے آتے ہیں۔